اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ ’کرہ ارض پر سب سے زیادہ بھوکا مقام‘ ہے، فلسطینی علاقے کی پوری آبادی اب قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جنگ کے تقریباً 20 ماہ مکمل ہونے کے بعد مذاکرات میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، اسرائیل نے مارچ میں غزہ میں دوبارہ کارروائیاں شروع کر دیں، جس سے 6 ہفتے کی جنگ بندی ختم ہو گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے (اوچا) کے ترجمان جینز لارکے نے کہا کہ ’غزہ زمین پر بھوک سے سب سے زیادہ متاثرہ جگہ ہے، یہ دنیا کا واحد علاقہ ہے، جہاں پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے، 100 فیصد آبادی قحط کے خطرے میں ہے، انہوں نے اسرائیلی حکام کے دعوے کو بھی مسترد کیا۔
حال ہی میں اسرائیل نے 2 مارچ کو عائد کی گئی مکمل امدادی ناکہ بندی کو جزوی طور پر نرم کیا ہے، ناکہ بندی کے باعث خوراک اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی۔
جنیوا میں اسرائیل کے سفیر ڈینیئل میرون نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں حقائق کو چن کر پیش کرتی ہیں تاکہ اسرائیل کو بدنام کیا جا سکے۔
انہوں نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ اپنی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش میں عالمی ایجنسیاں اسرائیل اور اس کے شراکت داروں کی طرف سے شہریوں تک امداد کی فراہمی کی بھرپور کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اقوام متحدہ حماس کو خوراک فراہم کرتا ہے، ہم یقینی بناتے ہیں کہ امداد ضرورت مندوں تک پہنچے۔
’تباہ کن بھوک‘
جنیوا میں ایک پریس بریفنگ کے دوران، لارکے نے غزہ کی پٹی میں انسانی امداد پہنچانے میں اقوام متحدہ کو درپیش مشکلات کی تفصیل بیان کی۔
لارکے کے مطابق، اسرائیل نے امدادی ناکہ بندی کے جزوی خاتمے کے بعد 900 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی ہے، تاہم اب تک صرف 600 ٹرک غزہ کی سرحد پر اتارے گئے ہیں، اور ان میں سے بھی کم تعداد میں امداد تقسیم ہو سکی، جس کی وجہ متعدد سیکیورٹی خدشات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی امداد کے ٹرک غزہ میں داخل ہوتے ہیں، انہیں اکثر مایوس لوگوں کی بھیڑ گھیر لیتی ہے، میں ان لوگوں کو ایک لمحے کے لیے بھی الزام نہیں دیتا، کیوں کہ وہ وہی امداد لے رہے ہیں جو دراصل انہی کی ہے، لیکن یہ امداد اس طریقے سے تقسیم نہیں ہو رہی جیسے ہم چاہتے ہیں۔
’مایوس کن اور افسوس ناک‘
غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (ایک نیا ادارہ جو اسرائیل اور امریکا کی حمایت سے مئی کے آغاز میں قائم ہوا) اس ہفتے غزہ کے مختلف مقامات پر امداد تقسیم کر رہا ہے۔
جب اس فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو لارکے نے کہا کہ یہ نظام مؤثر نہیں ہے، یہ لوگوں کی ضروریات پوری نہیں کرتا، یہ صرف افراتفری پیدا کرتا ہے۔
اے ایف پی کے صحافیوں کے مطابق منگل کو ہزاروں فلسطینی ایک امریکی امدادی مرکز پر جمع ہو گئے، جب اسرائیل نے اقوام متحدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے امداد کی تقسیم کا نیا نظام متعارف کرایا تھا۔
لارکے نے کہا کہ جب لوگوں کو خود امداد لینے کے لیے بلایا جاتا ہے، تو وہ امداد لے کر جاتے وقت لٹیروں کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔
’ اسرائیل کو مکمل چھوٹ مغربی ساکھ کیلئے خطرہ’
دوسری جانب، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ جنگ زدہ غزہ کو اس کے حال پر چھوڑ دینا اور اسرائیل کو ’مکمل چھوٹ‘ دینا مغرب کی عالمی ساکھ کو ختم کر دے گا۔
انہوں نے سنگاپور میں اعلیٰ سطح کے دفاعی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم غزہ کو چھوڑ دیتے ہیں، اگر ہم یہ سمجھیں کہ اسرائیل کو مکمل چھوٹ حاصل ہے، چاہے ہم دہشت گرد حملوں کی مذمت بھی کریں، تب بھی ہم اپنی ساکھ کھو دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے ہم دہرا معیار مسترد کرتے ہیں۔