دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد بہت سارے دل دہلا دینے والےواقعات اور کہانیاں منظرعام پر آرہی ہیں ۔ دہلی کے ا س تشدد کے دوران مصطفی ٰآباد کے آس محمد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ 25 فروری سے لاپتہ آس محمد کی تدفین 9 مارچ کو عمل میں لائی گئی تھیں۔
تاہم آس محمد کے جسد خاکی کی حالت ناقابل بیان تھی او ر یہی وجہ ہے کہ ان کے اہل خانہ کے بیشتر افراد نے آس محمد کا آخری دیدار بھی نہیں کیا۔مرحوم آس محمد کا مکان اولڈمصطفیٰ آباد کے شکتی وہار میں واقع ہے ۔ جس میں وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کے علاوہ اپنے والد تحسین علوی اوردو بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ آج رکشہ پر کپڑے فروخت کیا کرتے تھے۔ آج بھی انکا رکشہ گھر کے سامنے کھڑا ہے۔ شائد اب یہ کبھی نہ ہل نہ پائیں۔
آس محمد کے والد تحسین علوی ہیں ، ان سے زیادہ بیٹے کے چلے جانے کے غم کو کون سمجھ سکتے ہیں ۔ تحسین علوی مزدور کا کام کرتے ہیں۔ تحسین علوی نے نیوز18 اردو کو بتایا کہ 25 فروری کو اہل خانہ کے انکار کرنے کے باوجود آس محمد گھر سے چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔
انہوں نے بتایا کہ 1 مارچ کو آس محمد کی لاش نالے سے نکالی گئی اور 9 مارچ کو آس محمد کا پوسٹ مارٹم انجام دینے کے چند گھنٹوں کے اندرہی تدفین کردی گئی ہے۔کیونکہ آس محمد کی لاش کی حالت بہت خراب تھی۔ خراب تھی۔تحسین علوی کہتے ہیں کہ ایسا پھر نہ ہونا چاہیے اور کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔
آس محمد کے اہل خانہ نے ہمیں بات چیت کے دوران بتایاکہ 25 تاریخ کو آس محمد کے لاپتہ ہونے کے بعد ، تشد د کے وقت اہل خانہ کافی پریشان ہوگئے اوران کی تلاش میں تھانے میں آن لائن شکایت کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔پھر جب پولیس کے ذریعہ ایک تصویر دکھائی گئی تو آس محمد اور مشکل سے آس محمد کے کپڑے دیکھ کر ان کی شناخت کرلی گئی ہے۔
اس خاندان کے اس چھوٹے سے مکان کی تعمیر میں آس محمد کا بہت اہم رول رہا۔جس میں پورا کنبہ رہتا ہے۔ آس محمد کے 3 بچوں میں 9 سالہ بیٹا ریحان چوتھی کلاس میں ہے ۔
دو بیٹیاں سونم اور چھوٹی سائمہ ہیں۔جبکہ ان کی چھوٹی بیٹی سیما کی بولنے سے قاصر ہے۔ آس محمد تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ لہذا وہ پورے خاندان کی ذمہ داری اٹھاتے تھے۔اب انکی غیر موجودگی کی وجہ سے یہ گھر ٹوٹ کر بکھر گیاہے۔
آس محمد کے والد ، تحسین علوی کا کہنا ہے کہ 25 فروری کوانکے فرزند آس محمد کام سے واپس آر ہے تھے۔ لیکن برجپوری روڈ کو بند کردیاگیا تھا۔ جس کی وجہ سے انہیں نالے کی سڑک آنا پڑا اور وہاں انہیں قتل کرکے لاش کو نالے میں پھینگ دیاگیا۔۔
4 دنوں تک لاش نالے میں پڑی رہی۔ آس محمد کی لاش کو 1سے 9 مارچ تک ایل این جے پی کے اسپتال میں لاواث لاشوں میں پڑی رہی۔آس محمد کے پاس نہ کوئی شناختی کارڈ تھا اور نہ وہ موبائل فون استعمال کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ انکی شناخت میں کافی دشواری ہوئی۔
آس محمد کے والد کا کہناہے تشد د کے واقعات کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ ڈائل 100 پر فون کیا اور اپنے لاپتہ بیٹے کے بارے میں شکایت درج کروائی۔ تاہم تفصیلات حاصل کرنے والی دہلی پولیس نے اس معاملہ میں کوئی کارروائی نہیں ۔
علوی نے یاد کرکے بتایا کہ 9 مارچ جب علوی نے گوکولپوری پولیس اسٹیشن کا دورہ کیا توانہیں نالے نکالی گئی ہے ایک لاش کی تصویر دکھائی گئی۔روتے ہوئے تحسین علوی نے بتایا کہ ’’میں نےآس محمد کی شناخت اس کی جیکٹ سے کی۔ اس کا چہرہ پہچان نہیں پانا مشکل تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ آس محمد کے پاس فون نہیں تھا نہ ہی وہ اس وقت کوئی شناختی کارڈ لیکر گئے تھے۔
اس سلسلہ میں جب فرسٹ پوسٹ ڈاٹ کام نے پولیس کی طرف سے کوتاہی کے الزامات پر گوکل پوری پولیس اسٹیشن کےایس ایچ او پرمود جوشی سے ربط کیا تو انہوں نے کہا کہ علوی کی طرف سے کی جانے والی شکایات کے متعلق انہیں جانکاری نہیں ملی تھی۔ انکا کہناہے کہ جانکاری وقت پر ملتی تو پولیس ضروری کارروائی کرتی۔
انہوں نے بتایا کہ دہلی پولیس نے آس محمد کی لاش کی شناخت کے لئے دہلی پولیس کی ویب سائٹ ، یہاں تک کہ دوردرشن میں تفصیلات نشر کروائی تھی۔ اس کے علاوہ گوکل پوری پولیس اسٹیشن حددو میں جگہ جگہ نوٹس اور پرچے لگائے گئے تھے۔ جبکہ دہلی کے مختلف علاقوں میں واقع 15 پولیس اسٹیشنوں کو تفصیلات روانہ کی گئی تھی۔
مہلوک آس محمد کے اہل خانہ کو اب بھی معاوضہ کا انتظار ہے ۔ تاہم معاوضہ کی رقم سے آس محمد کی کمی کو پورا نہیں کیاجاسکتاہے۔ لیکن اس خاندان کو امید ہے کہ حکومت اس مشکل وقت میں ان کی مدد کریگی۔