امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران ان کے ساتھ کام کرنے والی معاون خصوصی نے اپنے تجربات سے عدالت کو آگاہ کردیا۔غیرملکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کیس کی سماعت کے موقع پر میڈلین ویسٹر ہاؤٹ نے عدالت کو بتایا کہ ٹرمپ نے سوشل میڈیا ٹوئٹس کے حوالے سے مجھے خود لکھنے کے بجائے نوٹس لینے کو ترجیح دی پھر وہ انہیں کاغذ پر ایڈٹ کر کے بھیجتے تھے۔
میڈلین ویسٹر ہاؤٹ نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ گرامر کو ترجیح دیتے تھے، ان کو کچھ الفاظ پسند تھے جیسے کہ ہر ٹوئٹ میں ’ملک‘ لکھنا اور ساتھ ہی کوما کا استعمال لازمی کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی اور اہم معاون ڈین اسکاوینو کو بھی سابق صدر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ تک رسائی حاصل تھی لیکن جب وہ نہیں ہوتے تھے تو میں کبھی کبھار ٹوئٹ کرنے میں مدد کرتی تھی۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کی صدارت کے وقت میڈلین ویسٹر ہاؤٹ کے بیٹھنے کی جگہ بالکل صدارتی آفس کے باہر تھی۔
سابق معاون نے بتایا کہ جب ٹرمپ صدر تھے تو بعض اوقات اپنے ٹوئٹس میں لکھ کر تبدیلی کرنے کے لیے وہ پرنٹ آؤٹ کراتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹوئٹر پر کام کرنا پسند تھا لیکن وہ مجھے ہی بلا کر پوسٹس ڈکٹیٹ کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور پھر مجھے اسے نوٹ کر کے جلدی سے اس کا مسودہ ٹائپ کرنا ہوتا تھا اور پھر اس کا پرنٹ نکالنا ہوتا تھا۔
میڈلین ویسٹر ہاؤٹ نے عدالت کو بتایا کہ کبھی کبھار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ٹوئٹس میں زیادہ ترامیم کراتے، میری معلومات کے مطابق سابق صدر نے نہ تو کمپیوٹر کا استعمال کیا اور نہ ہی ان کے پاس ای میل ایڈریس تھا۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق عدالت میں میڈلین ویسٹر ہاؤٹ کے بولتے وقت ڈونلڈ ٹرمپ انہیں غور سے دیکھ رہے تھے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق میڈلین ویسٹر ہاؤٹ کو 2019ء میں ٹرمپ کے خاندان کے بارے میں نجی معلومات لیک کرنے پر وائٹ ہاؤس سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔