امریکی محکمہ خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت نے ایک امریکی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن کو اغوا کرنے کی ناکام سازش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر 4 ایرانی انٹیلی جنس اہلکاروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ پابندیاں جولائی میں امریکی پراسیکیوٹرز کی جانب سے ان چار افراد پر نیویارک میں مقیم تہران کی ناقد صحافی کو اغوا کرنے کی سازش کا الزام لگانے کے بعد عائد کی گئی ہیں۔
اس سے قبل رائٹرز نے تصدیق کی تھی کہ وہ ایرانی نژاد امریکی صحافی مسیح علی نزاد ہیں۔
ایران نے مبینہ سازش کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
پابندیوں کے بارے میں ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکا ‘موجودہ اور سابق امریکی حکام سمیت دیگر امریکی شہریوں کو نشانہ بنانے میں جاری ایرانی دلچسپی سے آگاہ ہے’۔
تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
محکمہ خزامہ کے غیر ملکی اثاثوں کے کنٹرول کے سربراہ ایندریا گاکی کا کہنا تھا کہ ‘ایرانی حکومت کے اغوا کا پلاٹ تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کی مسلسل کوشش کی ایک اور مثال ہے چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بیرون ملک آواز کو نشانہ بنانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کا جبر ایران کی سرحدوں سے کہیں زیادہ پھیلا ہوا ہے’۔
ان پابندیوں کے تحت چاروں ایرانیوں کی ملکیت میں امریکا اور اس کے زیر اثر تمام جائیداد منجمد کرلی جائیں گی اور ان کے اور امریکی شہریوں کے درمیان کسی بھی لین دین پر پابندی عائد ہوگی۔
اس کے علاوہ دیگر غیر امریکی جو چاروں کے ساتھ کچھ لین دین کرتے ہیں ان پر بھی امریکای پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
محکمہ خزانہ نے بتایا کہ جن افراد کی منظوری دی گئی ہے ان میں ایران میں مقیم انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدیدار علی رضا شاہ وروغی فراہانی کے ساتھ ساتھ ایرانی انٹیلی جنس کے اہلکار محمود خزین، کیا صادیغی اور عمید نوری شامل ہیں۔