واشنگٹن: امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ‘ون چائنا’ کی پالیسی پر طویل عرصے سے اپنے موقف پر قائم رہے ۔مسٹر ٹرمپ نے اتوار کو ایک نیوز چینل کو دیئے انٹرویو میں یہ بات کہی۔مسٹر ٹرمپ کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب دو دسمبر کو مسٹر ٹرمپ کی تائیوان کی صدر سائی انگ وین سے فون پر بات چیت ہوئی تھی۔اس کے بعد چین نے سفارتی احتجاج درج کرایا تھا۔ 1979 سے برقرار اس امریکی پالیسی میں تائیوان کے معاملے پر چین کے موقف کا احترام کیا جاتا رہا ہے ۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ نے تائیوان سے رسمی تعلقات ختم کر دیے تھے ۔
بیجنگ تائیوان کو اپنا صوبہ قرار دیتا ہے اور اس کی آزاد ریاست کی حیثیت سے پہچان کا باعث بننے والی کسی بھی چیز سے اجنتاب چین کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے ۔تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ تجارت اور دیگر معاملات میں چین کی جانب سے رعایت کے بغیر اس پالیسی کو برقرار رکھنے کی انھیں کوئی وجہ نہیں نظر آتی۔حال ہی میں امریکی نو منتخب صدر ٹرمپ نے تائیوان کی صدر سائی اینگ وین سے براہ راست بات بھی کی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے بعد متعدد ٹوئیٹس میں چین اور اس کی جنوبی چینی سمندر میں کارروائیوں پر تنقید بھی کی۔ میڈیا میں تائیوان کے ساتھ بات چیت اور چین کے ناراض ہونے کے متعلق خبروں کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ‘عجیب بات ہے کہ امریکہ تائیوان کو اربوں ڈالر کا فوجی ساز و سامان فروخت کرتا ہے ، لیکن مجھے وہاں سے دی جانے والی مبارکباد کی فون کال کو قبول نہیں کرنا چاہیے ۔اتوار کو فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ‘مجھے نہیں معلوم کہ ہمیں ‘ون چائنا’ پالیسی کا احترام کیوں کرنا ہے ماسوائے اس کے کہ ہم چین کے ساتھ دیگر معاملات جیسے تجارت میں کوئی سودا کر لیں۔
مسٹر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرنسی اور شمالی کوریا کے معاملات پر چین امریکہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔اسی انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اس دعوے کو نہیں مانتے کہ روسی ہیکروں نے امریکی صدارتی انتخاب میں ان کی فتح کے لیے کردار ادا کیا۔واضح رہے کہ کسی امریکی صدر یا نومنتخب صدر کے لیے تائیوان کی قیادت سے بات چیت کرنا انتہائي غیر معمولی عمل ہے اور اس پر چین نے باضابطہ احتجاج کیا ہے ۔