ممبئی : یکم مارچ ۔(ندیم صدیقی) خانوادۂ سیماب کے ممتاز شخص(79سالہ) ناظر نعمان صدیقی(عرف مانی) طویل علالت کے بعد آج صبح انتقال کر گئے اور آج ہی بعد نماز عصر ناریل واڑی قبرستان(ممبئی) میں انہیں سپردِ لحد کر دیا گیا۔
ناظر نعمان صدیقی25نومبر1945 کو اکبر آباد( آگرے) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ علامہ سیماب اکبر آبادی کے پسر اعجاز صدیقی کے فرزند ِ ارجمند تھے۔
اُردو میں ایک لفظِ مرکب ’’ روحِ رواں‘‘ عام ہے، مانی بھائی پر یہ ترکیب صادق آتی ہے، یادگار ِ سیماب ماہنامہ ’’ شاعر‘‘ (ممبئی)کے مدیر اعجاز صدیقی اور فرزند ِ اکبر تاجدار احتشام صدیقی کے انتقال کے بعد جب(باقاعدہ) شاعر کی ادارت افتخار امام صدیقی نے سنبھالی تو اِس یادگار مجلّے کے تمام انتظامی امور ناظر نعمان صدیقی ہی کے ہاتھوں انجام پاتے رہے، اسی نسبت سے اُنھیں ماہنامہ شاعر کی ’روح رواں‘ کہنا ہم پر واجب ہے۔ افتخار امام صدیقی کے ٹرین حادثے کے بعد کوئی18 برس تک بستر پر، جس طرح مانی بھائی نے اپنے برادرِ خورد( افتخار امام) کی ہر طرح نگہداشت نہیں ’ خدمت‘
کی وہ اس دور میں ایک روشن مثال ہے۔
2021
میں افتخار امام صدیقی کے انتقال کے بعد ایک دن مانی بھائی سے ملاقات ہوئی تو وہ افسردہ افسردہ سے تھے، ہمارے کریدنے پر کہنے لگے:
’’ ندیم ! مجھے افتخار بہت یاد آتا ہے ، کبھی کبھی تورات گئے مجھے اس کی آواز سنائی دیتی ہے کہ مانی۔۔۔! مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘اور پھر ہم نے دیکھا کہ انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ اپنا منہ پھیر لیا۔ مانی بہر لحاظ ایک مثالی برادر تھے۔
کووِڈ کی ابتدا میں جب عبد الا حد ساز کا انتقال ہوا اور کووِڈ پروٹوکول کے سبب اُن کے جنازے میں کسی دوست کی شرکت نہ ہو سکی تو مانی بھائی نے فون کر کے ہم سے اپنا درد یوں بیان کہا :
’’ عبد الا حد ساز کیسا غیرت مند شخص تھا، اللہ کو سازؔ کےکسی دوست کی دو مٹھی خاک دینے کی بھی زحمت گوارا نہ ہوئی ۔‘‘
مانی بھائی نے ماہنامہ ’شاعر‘ کے ساتھ نصف صدی سے بھی زاید مدت گزاری، اس نسبت کے سبب شہر ممبئی ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممبئی کے شعرا و ادبا سے بھی ان کے گہرے مراسم رہے، سچ تو یہ ہے کہ مانی بھائی کی رحلت کے ساتھ ممبئی کے شعرا وادبا اور یہاں کے ادبی ماحول کی ایک تفصیلی روداد کا باب بھی تمام ہو گیا، انہوں نے روزنامہ’ انقلاب‘ میں اس کتابِ روداد کے چند اوراق رقم کیے تھے، اے کاش وہ پوری روداد اگر کتاب بن جاتی تو ممبئی کی ادبی فضا اور دور قدیم کے محبان اُردو وغیرہ سب ایک ریکارڈ بن جاتے۔
مانی بھائی، روزنامہ اِنقلاب کے ہمارے رفیقِ دیرینہ،بلکہ برادر رفیع خان کی چھوٹی بہن شاہینہ کے شوہر تھے، اس نسبت سے مانی بھائی سے ہمارا رشتہ ایک حرمت کا بھی حامل تھا اور مانی بھائی بھی اس رشتے کا پاس رکھتے تھے۔ مانی بھائی ’ شاعر‘ کا تازہ شمارہ لے کر جب جب اخبار کے دفتر آتے تھے توتادیر اُن سے گفتگو ہوتی تھی اور اس گفتگو میں کبھی اپنے حالیہ خانوادے کی ایسی باتیں بھی کر جاتے تھے جو شاید وہ کسی اور سے نہیں کر سکتے تھے اور ہم بھی ان کی یہ ذاتی باتیں سُن کر بھول جاتے تھے۔
مانی بھائی نے کئی زخم سہے، والد اعجاز صاحب کی رحلت، برادرِ محترم تاجدار احتشام کا وادیٔ غربت میں اچانک انتقال ، پھربھائی(مشہور آرٹسٹ) رئیس کا رخصت ہونا، والدہ نسیم بانو کا انتقال پُر ملال ہی نہیں اپنے اکلوتے لختِ جگر کا سانحۂ جانکاہ بھی انھوں نے جھیلا۔
مانی بھائی، افتخار امام (صدیقی) کے انتقال کے بعد سے مسلسل ٹوٹ رہے تھے، گاہے گاہے ہم ان سے ملاقات کی غرض سے دیناتھ بلڈنگ حاضری دیتے تھے،جہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں اعجاز صدیقی کا کوئی گیارہ بارہ افراد کا بھرا پُرا خاندان ایک طویل مدت آباد رہا بلکہ پروان چڑھا، اس نہایت چھوٹے سے کمرے میں رہنے والے با لخصوص محترمہ نسیم بانو( بیگم اعجاز صدیقی) کی وسعتِ قلبی بھی یاد گار ہے، خانوادۂ سیماب نے عسرت کے باوجود جس طرح اپنی روایاتِ احسن کے چراغ کو روشن رکھا جو نئی نسل کے لیے کسی بھی درس سے کم نہیں، ان کے دستر خوان پر اکبر آبادی ذائقے سے شاید ہی ممبئی کا کوئی شاعر و ادیب محروم رہا ہو۔
مانی بھائی اپنی والدہ کے اندازِ تربیت و تہذیب کے سچے وارث تھے، وہ جوروداد سناتے تھے وہ تھی تو حقائق پر مبنی مگر ایک افسانوی طرز بھی رکھتی تھی۔
ہم بہن شاہینہ اور مانی بھائی کی اکلوتی دختر کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اللہ انہیں صبر کی توفیق دے اور مانی بھائی کی مغفرت کرے۔ آمینsafdar