جنابِ عقیل عباس جعفری کی اطلاع کے مطابق محترمہ شہناز نور نے دُنیا سے منہ موڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ اللہ اس شفیق اور اچھی شاعرہ کی مغفرت کرے آمین مرحومہ کے ساتھ کراچی سے حیدرآباد (سندھ) کا ایک سفر اور اِس سفر میں ان سے گفتگو اور ان کا شفقت بھرا رویہ ناقابلِ فراموش ہے ۔
انہوں نے اپنی کتاب بھی دی تھی وہ اچھا شعر کہتی تھیں نیز اس کتاب میں ان کا دیباچہ بھی خوب ہے انہوں نے اس مضمون میں اپنی آپ بیتی بھی درج کر دی ہے۔ اس وقت اُن کا یہ شعر یاد آتا ہے : “عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے % کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے”۔۔۔ اسی غزل کا ۔۔۔۔”کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے”۔۔۔۔۔۔۔پہلا مصرع بھول رہا ہوں مگر اس کا تاثر پوری طرح باقی ہے۔
وہ انڈیا میں معروف نہیں تھیں مگر ان کی شعری خوبیاں ایسی ہیں کہ جو باذوق انھیں پڑھے گا بھولے گا نہیں اور احقر نے تو” ان کو ” پڑھا ہے۔ یاد آتا ہے کہ جب چند برس قبل پاکستان کے ایک علاقے میں جو زلزلہ آیا تھا اس پر اُن کی نظم نہایت تاثر آمیز محسوس ہوئی تو احقر نے روزنامہ ‘انقلاب'(بمبئی) میں اسے بہ اہتمام شائع بھی کیا تھا۔
مرحومہ کا ایک وصف جو بیان سے رہا جاتا ہے کہ وہ اپنی شہرت سے بے نیاز محسوس ہوئی تھیں جبکہ وہ ایک سرکاری اہم عہدےدار تھیں ان کے لیے شہرت کاحصول ایک معمولی سی بات تھی مگر یہ حرکتیں تو کمزور لوگ کیا کرتے ہیں۔ اللہ اس قوی کردار خاتون کی روح کو ہر طرح سے آسودہ کرے آمین