امریکا میں پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں 20 سالہ سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت پر منی سوٹا شہر میں دوسرے روز بھی مظاہرے جاری ہیں۔
امریکی خبررساں ادارے ‘اے پی ‘ کی رپورٹ کے مطابق بروکلین سینٹر پولیس چیف ٹم گینن نے دو روز قبل 20 سالہ نوجوان ڈونٹے رائٹ کی موت کو ‘حادثاتی فائرنگ’ کا نتیجہ قرار دیا۔
اتوار کی رات کو ہونے والے مظاہروں کے بعد منیا پولس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نفری میں اضافہ کیا گیا جبکہ گزشتہ شب منی سوٹا نیشنل گارڈ کی تعداد دگنی ہوکر ایک ہزار سے زائد ہونے کا امکان تھا۔
گزشتہ روز حکام کی جانب سے واقعے کی ویڈیو فوٹیج ریلیز کی گئی تھی جس میں پولیس افسر کو ڈونٹے رائٹ کو گرفتار کرنے کی کوشش میں فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
فوٹیج میں 3 افسران کو ایک رکی ہوئی گاڑی کے پاس کھڑے دیکھا گیا ہے، جسے حکام کے مطابق ایکسپائرڈ رجسٹریشن ٹیگز کی وجہ سے روکا گیا تھا۔
ویڈیو فوٹیج میں دیکھا گیا کہ جب ایک افسر نے ڈونٹے رائٹ کو ہتھکڑی پہنانے کی کوشش کی، تو دوسرے افسر نے بتایا کہ اسے وارنٹ کی بنیاد پر گرفتار کیا جارہا ہے جس پر اس نے فرار ہونے کی کوشش کی اور پولیس نے فائر کیا۔
پولیس چیف کے مطابق ان کا خیال ہے کہ خاتون پولیس افسر نے ٹیسر استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن ایک گولی فائر کردی۔
انہوں نے کہا کہ ‘جو میں نے دیکھا تھا اور واقعے کے فوراً بعد جو افسر کا ردعمل تھا وہ یہ تھا کہ حادثاتی فائرنگ تھی جس کا نتیجہ ڈونٹے رائٹ کی المناک موت کی صورت نکلا’۔
ہینیپن کاؤنٹی میڈیکل کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ ڈونٹے رائٹ کی موت سینے میں لگی گولی کے زخم کی وجہ سے ہوئی۔
دوسری جانب بروکلین سینٹر کے میئر مارک ایلیوٹ نے فائرنگ کے واقعے کے افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ پولیس افسر کو ملازمت سے نکالا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم تمام کمیونیٹیز تک انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہر کوشش کررہے ہیں’۔
بروکلین سینٹر کے میئر نے کہا کہ مذکورہ واقعے پر سٹی منیجر کو برطرف کردیا گیا ہے اور ان کی جگہ ڈپٹی سٹی منیجر عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔
سٹی منیجر کو برطرف کرنے کی وجہ فوری طور پر واضح نہیں ہوئی لیکن شہر کے چارٹر کے مطابق سٹی منیجر کے پاس محکمہ پولیس کے کنٹرول کا اختیار ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ ہلاک ہونے والے نوجوان ڈونٹے رائٹ کے اہلخانہ نے کہا تھا کہ پولیس نے نوجوان کے گاڑی میں بیٹھنے اور چلانے سے قبل اس پر فائرنگ کی تھی اور اسے بعدازاں مردہ قرار دیا گیا تھا۔
بروکلین سینٹر پولیس نے کہا تھا کہ افسران نے اتوار کو دوپہر 2 بجے سے پہلے ایک شخص کو روکا تھا۔
پولیس کے بیان میں کہا گیا تھا کہ جب ڈرائیور کی دستاویزات چیک کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اس کے خلاف وارنٹ جاری ہوئے تھے جس پر پولیس نے ڈرائیور کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہوگیا۔
مزید کہا گیا تھا کہ افسر نے گاڑی پر فائر کیا تھا جو ڈرائیور کو جالگا اور دوسری گاڑی سے ٹکرانے سے قبل نشانہ بنائے جانے والی گاڑی نے کئی بلاکس کا فاصلہ طے کیا تھا۔
واضح رہے کہ جون 2020 میں امریکی ریاست منی سوٹا میں 46 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج شروع ہوا تھا۔
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں غیر مسلح سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد جاری پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران تقریباً 10 ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں امریکا کی متعدد ریاستوں میں پھیل جانے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے احتجاج کرنے والے شہریوں کو مقامی دہشت گرد سے تعبیر کرتے ہوئے ان پر لوٹ مار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
بعدازاں اگست میں بھی پولیس کی فائرنگ سے ایک اور سیاہ فام کی ہلاکت کے بعد پرتشدد مظاہرے کیے گئے تھے۔