ایران کی جانب سے کیے گئے بیلسٹک میزائل تجربے کے بعد امریکا کی عائد کردہ نئی پابندیوں کے خلاف چین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کیوں کہ پابندی کی زد میں بعض چینی شہری اور کمپنیاں بھی آرہی ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے 25 افراد اور اداروں پر عائد کی گئی پابندیوں کے بعد یہ شخصیات اور کمپنیاں امریکی مالی نظام تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی اور نہ ہی امریکی کمپنیوں سے کوئی لین دین کرسکتی ہیں۔
پابندیوں کا شکار ہونے والی ایران کی 13 شخصیات اور 12 کمپنیوں کو کچھ ثانوی پابندیوں کا بھی سامنا ہے جس کے تحت غیر ملکی کمپنیاں اور شخصیات ان سے کسی قسم کا لین دین نہیں کرسکتے اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں بھی امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔
اس فہرست میں دو چینی کمپنیاں اور تین چینی افراد بھی شامل ہیں تاہم امریکی محکمہ خزانہ نے پابندی کے حوالے سے جاری اپنے بیان میں ان میں سے صرف ایک شخص چن شیانہوا کو چینی شہری بتایا ہے۔
گذشتہ ہفتے پابندی کا اعلان سامنے آنے کے بعد امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا تھا کہ ایران اور چین میں مقیم یہ شخصیات اور کمپنیاں تہران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور پاسداران انقلاب کے حامی ہیں۔
ان پابندیوں کے بعد چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لو کانگ کا کہنا تھا کہ بیجنگ نے امریکی اقدام کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کیونکہ ایسی پابندیاں جو کسی تیسرے فریق کے مفادات کو نقصان پہنچائیں مشترکہ تعاون کے لیے ‘سود مند نہیں’۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم مسلسل یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت کرتے آرہے ہیں’۔
دوسری جانب فہرست میں شامل 2 چینی کمپنیوں کے مالکان کا پابندی پر کہنا تھا کہ ان کی کمپنیوں نے عام اشیاء وسط ایشیائی ممالک کو برآمد کیں اور ان کے خیال سے انہوں نے کچھ ایسا نہیں کیا جسے غلط قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ چین ماضی میں بھی امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے ایران اور شمالی کوریا کے جوہری عزائم کے باعث چینی کمپنیوں پر لگائی گئی یکطرفہ پابندیوں پر برہمی کا اظہار کرتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ چین کے تہران کے ساتھ قریبی معاشی اور سفارتی تعلقات ہیں تاہم وہ 2015 میں ہونے والی اس ڈیل کا بھی حصہ تھا جو ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کرنے لیے عالمی قوتوں کی جانب سے کی گئی تھی۔