امریکا کے کیپیٹل ہل اور کانگریس کے دفاتر کی عمارت کے باہر مبینہ کار حملے میں 2 پولیس افسران سمیت 3 افراد زخمی ہوگئے جس کے بعد ہائی الرٹ کردیا گیا اور حکام نے تفتیش بھی شروع کردی۔
خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق کیپیٹل پولیس کا کہنا تھا کہ کار سوار کے حملے میں دو افسران کے زخمی ہونے پر فوری ردعمل دیتے ہوئے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ دو افسران سمیت تینوں زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
کیپیٹل ہل کی مثالی عمارت کے باہر مبینہ حملے کے بعد پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچی جہاں تین ماہ قبل 6 جنوری کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے دھاوا بول دیا تھا۔
پولیس نے کیپیٹل ہل کی جانب جانے والے تمام راستے بند کردیے اور آنے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔
جائے وقوع پر ایک ہیلی کاپٹر نے فضائی نگرانی شروع کردی اور مبصرین کو بھی علاقہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی، اسی طرح ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو زخمیوں کو ایمبولینس میں بٹھا کر منتقل کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 6 جنوری کے حملے کے بعد سیکیورٹی کی غرض سے کھڑی کی گئیں رکاوٹیں چند ہفتے قبل ہی ہٹائی گئی تھیں۔
اراکین کانگریس مبینہ حملے کے وقت واشنگٹن میں موجود نہیں تھے کیونکہ سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں ایسٹر کے سلسلے میں چھٹیوں پر ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن بھی اس وقت شہر سے باہر تھے اور وہ میری لینڈ میں کیمپ ڈیوڈ میں صدارتی محل پہنچ گئے تھے۔
یاد رہے کہ 6 جنوری کو واشنگٹن ڈی سی میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج میں تبدیلی اور منتخب صدر جو بائیڈن کی جگہ ڈونلڈ ٹرمپ کو برقرار رکھنے کی کوشش میں کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا اور پرتشدد واقعات کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے اس حملے کے دوران کیپیٹل ہل (امریکی ایوان نمائندگان) کی عمارت میں موجود قانون دان اپنی جانیں بچاتے ہوئے ڈیسکوں کے نیچے چھپنے پر مجبور ہو گئے۔
اس دوران فائرنگ کے نتیجے میں کیپیٹل ہل کے اندر ایک خاتون ہلاک ہوگئیں جس کے بعد میئر نے تشدد میں کمی کے لیے شام کے وقت واشنگٹن میں کرفیو نافذ کردیا تھا۔
امریکی دارالحکومت میں ناخوشگوار مناظر دیکھ کر دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان اور حکومت نے مذمت کی تھی جبکہ فیس بک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے سوشل میڈیا ایپس پر غیر معینہ مدت کے لیے بلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک لائی گئی تاہم سینیٹ نے انہیں دارالحکومت میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے حوالے سے کردار پر بری کردیا تھا۔
سابق صدر کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں ٹرائل 5 روز تک چلا اور ان کے خلاف ووٹوں کی تعداد 43 کے مقابلے 57 ووٹس رہی جبکہ انہیں سزا دینے کے لیے 2 تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔
واضح رہے کہ سابق صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے اس لیے مواخذے کی کارروائی کو انہیں عہدےسے ہٹانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ڈیموکریٹس کو امید تھی کہ وہ دارالحکومت کے پُر تشدد گھیراؤ کا ذمہ دار ٹھہرانے پر انہیں سزا دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے وہ دوبارہ سرکاری عہدے پر نہیں آسکیں گے۔
سابق امریکی صدر نے اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس کے فوراً بعد ان کے حامیوں نے 6 جنوری کو امریکی دارالحکومت کے کیپٹل ہل پر چڑھائی کردی تھی۔
ووٹنگ کے عمل میں 7 ریپبلکن سینیٹرز نے ڈیموکریٹس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو سزا دینے کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔