اترپردیش کے شہر مراد آباد شہرکے قصبے لاجپت نگر میں ذاکر حسین کے گھر پر اب تالے پڑے ہوئے ہیں جہاں گزشتہ پچیس مارچ بروز سنیچر نماز تراویح ادا کیے جانے پر ہندو تنظیم راشٹریہ بجرنگ دل کے ہنگامے کے بعد تراویح کی ادائیگی کو روک دیا گیا تھا۔
اس گیٹ پر پوسٹر لگائے گئے تھے جن پر لکھا تھا:’رمضان مبارک۔ تراویح میں تین سپارے پڑھے جائیں گے 8:15 بجے۔ انشا اللہ۔’
یہ گھر ذاکر حسین کا ہے جو قریب ہی رہتا ہے۔ اس نے یہ گھر کچھ برس پہلے خریدا تھا۔ ذاکر حسین اسے گودام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ذاکر کی قریب ہی لوہے کی ایک بڑی دکان ہے۔
اس گھر کے دونوں جانب ہندو خاندان رہتے ہیں۔ اس علاقے میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔
سنیچر کے روز جب اس گھر میں نماز تراویح ادا کی جا رہی تھی تو ہندو تنظیم راشٹریہ بجرنگ دل کے لوگوں نے وہاں شور شرابہ کیا۔
یاد رہے کہ راشٹریہ بجرنگ دل وشوا ہندو پریشد کی تنظیم بجرنگ دل سے الگ ہے۔
اس گھر میں نو روز تک نماز تراویج پڑھی جانی تھی۔
لیکن تیسرے روز ہی راشٹریہ بجرنگ دل کے ہنگامے کی وجہ سے یہاں تراویح کی ادائیگی کو روک دیا گیا ہے۔
یہاں نہ صرف نماز تراویح کی ادائیگی کو روک دیا گیا ہے بلکہ انتظامیہ نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ذاکر حسین کے گھر میں نماز تراویح کی ادائیگی کو روکنے سے متعلق آڈرکی خلاف ورزی کی گئی تو دس مسلمانوں کو علاقے کا سکون خراب کرنے کے جرم میں فی شخص پانچ لاکھ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
اسی طرح راشٹریہ بجرنگ دل کے لوگوں کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا۔
نماز تراویح کی ادائیگی پر جھگڑا کیا ہے؟
جھگڑا کیا ہے؟
جس گھر میں نماز تراویح ادا کی جاری تھی وہ ذاکر حسین کی ملکیت ہے
ذاکر حسین کے مطابق 23 مارچ سے ان کی پراپرٹی میں جسے وہ گودام کےطور پر استعمال کرتے ہیں، نماز تراویح شروع کی گئی جسے نو دن جاری رہنا تھا۔
25 مارچ کو آٹھ بجےشام نماز تراویح کی ادائیگی کے لیے تیس چالیس افراد وہاں پہنچے۔
جب نماز تراویح جاری تھی تو ساٹھ ستر لوگ اس گھر کے باہر جمع ہو گئے اور نماز تراویح کی ادائیگی کو روکنے کا کہا۔
ان لوگوں میں سے زیادہ کا مبینہ طور ہندو تنظیم راشٹریہ بجرنگ دل سے تعلق تھا۔
پولیس موقع پر پہنچ گئی
ذاکر حسین کے مطابق پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ نماز تراویح کو مکمل کرنےمیں مزید آدھا گھنٹہ لگے گا۔ عام طور پر نماز تراویح کی ادائیگی میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔
ذاکر حسین کے مطابق پولیس نے انھیں تراویح مکمل کرنے کے لیے آدھے گھنٹے کا وقت دیا۔
پولیس کے مطابق ماحول کافی کشیدہ تھا اور بڑی مشکل سے لوگوں کو ٹھنڈا کیا گیا۔
موقع پر موجود ذاکر حسین نے پولیس کو یقین دہانی کرائی کہ آج کے بعد ان کی پراپرٹی پر نماز تروایح ادا نہیں کی جائے گی جس سے جھگڑا ختم ہو گیا۔
26 مارچ کو پولیس نے دونوں فریقوں کو امن عامہ میں خلل ڈالنے کے الزام میں ایکشن لیا ۔
پولیس کے مطابق یہ ایکشن امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے لیا گیا ہے۔
پولیس نے سی آر پی سی کی سیکشن 106 اور 107 کے تحت احتیاطی تدبیر کے طور ایک نوٹس جاری کیا جس میں موقع پر موجود دس مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اگر انھوں نے علاقے کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کی تو انھیں فی شخص پانچ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
ذاکر حسین بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہیں یہ نوٹس جاری کیا گیا۔
لاجپت نگر کے کٹگھر تھانے کے سرکل آفیسر شیالجا مشرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا فریقین کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے۔ ایک پارٹی کو نوٹس مل گئے ہیں جبکہ دوسرے فریق کو نوٹس بھیجنے کا کام جاری ہے۔
راشٹریہ بجرنگ دل کا اعتراض کیا ہے؟
ایک سوال کے جواب راشٹریہ بجرنگ دل کے ریاست کے صدر روہن سیکسنا نے سنیچر کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ذاکر حسین یہاں لوگوں کو بلا کر نماز تروایح کرنے کی نئی روایت ڈال رہے ہیں۔ ہمیں مقامی لوگوں سے اطلاع ملی۔ ہمیں نماز کی ادائیگی کی تصاویر بھی بھیجی گئیں۔
انھوں نے کہا: ‘ہم یہ نئی روایت قائم نہیں ہونے دیں گے۔ ان لوگوں کے خلاف شہر میں بدامنی پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو راشٹریہ بجرنگ دل احتجاج شروع کرے گی۔’
ایک اور شخص نے کہا کہ اس گھر میں پہلے کبھی نماز تروایح ادا نہیں کی گئی۔ پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ یہاں نماز تراویح ادا کی جا رہی تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے روہن سیکسنا نے کہا: ‘ہم اپنے مطالبے پر قائم ہیں جو ہم نے سنیچر کو کیا تھا۔’
روہن سیکسنا نے گھر کے اندر نماز تراویح کی ادائیگی پر اعتراض کے حوالے سے سوال کا جواب نہیں دیا۔