آج جبکہ ہندتوادی عناصر بابری مسجد کے مقدمہ میں اپنی کامیابی سے مایوس ہوکر مجرمانہ سازشوں کے ذریعہ عدالت سے باہر ’’بات چیت‘‘ کے ذریعہ بابری مسجد کی زمین کو کسی نہ کسی طرح ہتھیالینے کی فکر میں ہیں ۔ ’’بات چیت کے ذریعہ باہمی رضامندی‘‘ سے فیصلے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ بابری مسجد کی زمین کے حق ملکیت سے مسلمان دستبردار ہوکر بابری مسجد کی زمین مندر بنانے کیلئے ہندتوادی عناصر کے حوالے کردیں ۔
اس لئے مسلمانوں نے بات چیت سے انکار کرکے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ہی ترجیح دینے اور اس کے قابل قبول ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس لئے نام نہات بات چیت کا معاملہ ٹل گیا تھا۔ ایسے میں شیعہ وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی نے صرف سنی مسلمانوں بلکہ شیعہ مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے اور اعلان کردیا کہ بابری مسجد شیعوں کی ملکیت ہے اس کی زمین اور متصلہ اراضی پر شیعہ بورڈ کی ملکیت ہے اور وہ اسے رام مندر کی تعمیر کیلئے قدیم تنازعہ ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ ساتھ ہی وسیم رضوی رام چندر جی کی دیوقامت مورتی کی تعمیر میں بھی شریک ہونا چاہتے ہیں ۔
مورتی کے ہاتھ میں رہنے والی تیرکمان کیلئے سونے کی تبروں کے عطیہ کا بھی اعلان بھی کیا نہ صرف یہ بلکہ ہمایوں کے مقبرہ کو منہدم کرکے وہ اسے وسیع وعریض قبرستان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ غرض کہ وہ مرکزی اور یوپی کی بھاجپائی حکومتوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور خود کو عہد حاضر کے میر جعفر اور میر صادق ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ واضح ہوکہ شیعہ وقف بورڈ اور وسیم رضوی کی کوئی مستند حیثیت خود شیعوں میں نہیں ہے۔ مولانا کلب صادق نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی شیعہ وقف بورڈ کی ان ناپاک کوششوں کی تائید نہیں کی اور نہ ہی آل انڈیا بورڈ کے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ وسیم رضوی عوام اور حکومت کو گمراہ کررہے ہیں کہ ان کو ملک بھر کی شیعہ برادری کی نہ صرف نمائندگی کا حق ہے بلکہ شیعہ عوام کے وہ مسلمہ نمائندے ہیں اور بابری مسجد کی زمین کی ملکیت شیعوں کی ہے اس لئے وہ مسجد کی زمین کو شیعہ برادری کی طرف سے رام مندر کی تعمیر کیلئے دینے کے لئے تیار ہیں ! تاکہ یہ دیرینہ تنازعہ ختم ہوسکے۔
سب سے پہلے ہم واضح کردیں کہ یہ شخص نابکار وسیم رضوی جو کچھ بھی ہرزہ سرائی کررہا ہے وہ اپنی ذاتی حیثیت سے کررہا ہے (ویسے ہمارے متعدد شیعہ قارئین کا خیال ہے کہ وسیم رضوی کی ماسوائے سرکاری یا چند فروخت شدہ بے ضمیر غدار ان ملت کے حلقوں کے کہیں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے) شیعہ عوام و خواص کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وسیم رضوی غالباً پہلا شیعہ ہے جس نے عامتہ المسلمین کے بابری مسجد کے بارے میں متحدہ اور مضبوط موقف سے انحراف کیا ہے۔ ویسے مسلم راشٹریہ منچ کے نام نہاد مسلمانوں اور مختار نقوی اور شاہنواز حسین اور نجمہ ہبت اللہ کو آپ مسلمان سمجھتے ہوں تو آپ کی مرضی!
شیعہ وقف بورڈ کاشیعہ عوام سے ایسا تعلق نہیں ہے جو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا عامتہ المسلمین سے بلالحاظ فرقہ و مسلک ہے۔ شیعہ وقف بورڈ حکومت کا قائم کردہ ہے اور وسیم رضوی حکومت کے مقررکردہ ہیں ۔ ان کی کوئی عوامی حیثیت نہیں ہے۔ شیعہ عوام کی وہ نمائندگی نہیں کرتے ہیں ۔ شیعہ وقف بورڈ کی طرف سے وسیم رضوی جوکررہے ہیں کہہ رہے ہیں ۔ اس کا شیعہ عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شیعہ وقف بورڈ یوپی کی ریاستی حکومت کا حصہ ہے۔ شیعہ وقف بورڈ کا موقف دراصل سرکاری موقف ہے اس لئے وسیم رضوی کے بیانات قطعی قابل اعتنا نہیں ہیں ۔ مندرجہ بالا حقائق کے باوجود وسیم رضوی سب کو گمراہ کررہے ہیں کہ بابری مسجد کے بارے میں ان کیلئے پورے پورے اختیارات حاصل ہیں اور وہ بابری مسجد کی زمین کو رام مندر کی تعمیر کرنے کیلئے دے دینے کا حق رکھتے ہیں ۔ یہ باتیں نہ صرف ان کی شخصیت کو سنگھ پریوار کا ایجنٹ ماننے کی ترغیب دیتی ہیں ۔
شیعہ برادری، اکابرین، علماء اور دانشور وسیم رضوی سے بالکل اتفاق نہیں کرتے ہیں ۔ دو معروف شیعہ عالم مولانا کلب صادق اور مولانا کلب جواد نے وسیم رضوی کی شدید مذمت کی ہے۔ مولانا کلب صداق نے بابری مسجد کی زمین کو مندر بنانے کے لئے حوالہ کرنے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ وہ اسے شیعہ برادری کی رائے نہیں مانتے ہیں بلکہ وسیم رضوی کیذاتی رائے کہتے ہیں اور جس طرح وسیم رضوی اپنی نچی رائے کو شیعہ فرقہ کی متفقہ اور اجتماعی رائے قرار دے رہے ہیں اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اس کے بعد مولانا کلب جواد نے وسیم رضوی کے بیانات کو کے خلاف سی بی آئی کی کارروائیوں سے بچنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ شیعہ وقف بورڈ کے صدرنشین کی حیثیت سے انہوں نے ہر قسم کی بدعنوانیاں کی ہیں ۔ شیعہ اوقاف کی جائیدادوں کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ اس لئے رام مندر کی تعمیر کے سلسلہ میں وہ یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی حکومت مرکزی حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کو خوش کرنے والے بیانات دے کر اپنی بدعنوانی اور کالے کرتوتوں کو چھپانے اور کسی سرکاری ادارہ کی اس سلسلے میں تحقیق اور تفتیش سے بچنا چاہتے ہیں ۔ مولانا کلب جواد کے بیانات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ بہت پہلے ہی وسیم رضوی پر بدعنوانی، رقمی خرد برد اور اوقافی جائیدادوں کی لوٹ کھسوٹ کے الزامات لگ چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ خود کو بچانے کیلئے بدعنوان اور بے ایمان افراد کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں ۔
وسیم رضوی کو حکومت اور پریوار کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ ان باتوں سے عدالت سے باہر بات چیت کی تجویز سپریم کورٹ نے پیش کی تھی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بات چیت کے تمام امکانات کو سابقہ تجربات کی روشنی میں مسترد کرکے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے تاہم یوپی شیعہ بورڈ کی ایسی پیشکش سپریم کورٹ کی کارروائیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے ان کی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی سری سری روی شنکر (جو اب تک وسیم رضوی کی طرح بابری مسجد کے کسی بھی معاملے سے بہت دور رہے تھے) کی ثالثی کی کوشش اور وسیم رضوی سے ان کی بات چیت ہے۔ وسیم رضوی ہوں یا روی شنکر اپنے طور پر جو چاہے کہہ لیں لیکن کیا عدالت عظمیٰ ان دونوں یا کسی ایک کو بھی اس مقدمہ میں فریق آخر کیوں تسلیم کرے گی اگر بابری مسجد 1949ء میں ایک شیعہ مسجد تھی تو آج تک شیعہ برادری شیعہ وقف بورڈ اور کوئی شیعہ عالم قائد یا دانشور کہاں تھے؟ اور کیوں خاموش تھے؟ روی شنکر کس حیثیت سے مقدمہ میں دخل انداز ہوسکتے ہیں ؟ یادرہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کو اس مقدمہ میں فریق تسلیم نہیں کیا تھا اور بغیر عدالتی فیصلے اور اجازت کے بابری مسجد کی زمین پر مندر کی تعمیر شروع کرنا توہین عدالت ہے۔ بقول مولانا کلب جواد اپنے جرائم کی سزا سے بچنے کے لئے وسیم رضوی نے یہ کھیل شروع کیا ہے جو کامیاب نہیں ہوسکت اہے۔ شیعہ وقف بورڈ کا بابری مسجد سے کوئی تعلق نہ رہا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس لئے وسیم رضوی کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ رہے روی شنکر تو وہ سرکار کے آدمی ہیں وہ بی جے پی اور ہندتوادی عناصر کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں وسیم رضوی بھی سرکاری آدمی ہیں ۔ اسی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ بی جے پی حکومت اور مندر کمیٹی کی یہ مشترکہ سازش ہے تاکہ مقدمہ پر اثر ڈالا جائے اور سب سے بڑھ کر شیعہ سنی اختلافات پیدا کئے جائیں لیکن شیعہ فرقہ پر وسیم رضوی اور یعسوب عباس جیسے بھاجپائی ایجنٹوں کا کوئی اثر نہیں ہے اس لئے شیعہ سنی اختلافات کو ہوادینے اور تنازعات پیدا کرنے کی سازش بھی ناکام ہوچکی ہے۔
وسیم رضوی کس طرح آر ایس ایس بی جے پی اور حکومت کی چاپلوسی کررہے ہیں اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ رام مندر کی دیوقامت مورتی کی تعمیر میں بیش قیمت عطیات دینے کا اعلان کرچکے ہیں ۔ حالانکہ شیعہ مسلک بھی تمام مسالک کی طرح ’’بت گری‘‘ یا اس میں کسی طرح شریک ہونا ممنوع ہے لیکن سنگین الزامات سے خود کو بچانے کے لئے وسیم رضوی نے نہ صرف خود کو فروخت کردیا ہے بلکہ شیعہ فرقہ کی بدنانی سامان کررہے ہیں ا سی لئے شیعہ مذہبی شخصیات اور اکابرین ان کی بری طرح مذمت کررہے ہیں ۔
وسیم رضوی نے ہمایوں کے مقبرے کو منہدم کرکے مقبرہ کی ساری اراضی پر قبرستان کیلئے مختص کرنے کی درخواست وزیر اعظم مودی سے کی ہے۔ یہ دراصل پیش خیمہ ہے کہ کل تاج محل کو بھی مسمار کرنے کا۔ تاہم کوئی مرکزی حکومت خواہ وہ کسی پارٹی کی ہو اتنی احمق نہیں ہوسکتی ہے کہ آمدنی اور خاص طور پر زر مبادلہ کی کمائی کا اہم ذریعہ ختم کردے۔ ہمایوں کے مقبرے کے بارے میں وسیم رضوی کی شرانگیز بلکہ احمقانہ تجویز کی مذمت کی جارہی ہے بلکہ اس سے اچھی بات یہ ہے کہ کہیں بھی اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے اس سلسلے میں وسیم رضوی کے خیالات اور زبان کسی مسلم دشمن سنگھی سے بھی زیادہ زہر آلود ہے۔ مودی کے نام لکھے گئے خط میں وسیم رضوی نے ہمایوں جیسے فرشتہ صفت شہنشاہ پر رکیک الزامات لگاکر مسلم دشمنوں کو خوش کرنا چاہا ہے۔ وسیم رضوی کا کردار اور شخصیت مسلمانوں خاص طور پر شیعہ فرقہ کی بدنامی کا سبب ہے۔