کلیسائے روم نے اپنی ایک سرکاری دستاویز میں انسانوں کو اپنی صنف تبدیل کرنے یا خود اس کا انتخاب کرنے کے خلاف تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدا نے انسانوں کو مردوں اور عورتوں کے طور پر پیدا کیا، جس میں کوئی بھی مداخلت غلط ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی منگل گیارہ جون کو ویٹیکن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر کے کیتھولک مسیحیوں کے اس روحانی مرکز کی طرف سے اس نظریے پر تنقید کی گئی ہے، جسے کلیسائے روم نے ‘صنفی نظریے‘ کا نام دیا ہے۔ اس دستاویز کا عنوان ہے: ”انسان کو مرد اور عورت کے طور پر خدا نے پیدا کیا۔‘‘
کلیسائے روم کی اس دستاویز میں کہا گہا ہے کہ جدید دور کے انسان جس ‘صنفی نظریے‘ یا ‘جینڈر آئیڈیالوجی‘ کے نام پر اپنی صنف تبدیل کر لیتے ہیں یا پیدائش کے بعد بالغ انسانوں کے طور پر اپنے لیے اپنی جنس کا انتخاب خود کرتے ہیں، وہ ایک غلط کام ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ویٹیکن کی یہ دستاویز دراصل تمام کیتھولک تعلیمی اداروں کے لیے اس بارے میں ایک رہنما ضابطہ بھی ہے کہ انہیں ‘صنفی نظریے‘ کا سامنا کیسے کرنا چاہیے۔ کیتھولک تعلیمات سے متعلق ایک تعلیمی کانگریس کے موقع پر جاری کردہ اس دستاویز میں کہا گہا ہے کہ کلیسائے روم کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں جنسیت کے حوالے سے ایک ‘ہنگامی صورت حال‘ پیدا ہو چکی ہے، جو مسلسل شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔
جرمنی کی ایک مشہور ٹرانس جینڈر، ڈریگ کوئین اولیوا جونز، درمیان میں، دو ہزار سترہ میں وفاقی جرمن صدر کے انتخاب کے موقع پر وفاقی چانسلر میرکل، بائیں، کے ہمراہ
دستاویز کے مطابق، ’’صنفی نظریہ ایک ایسی سوچ ہے جو مرد اور عورت کے مابین اس قدرتی فرق کی نفی کرتا ہے، جس کے ساتھ انسان کو دو صنفوں میں پیدا کیا گیا تھا۔ اس نظریے کے باعث معاشرتی سطح پر صنفی تفریق ختم ہو سکتی ہے اور یوں سماجی بشریاتی سطح پر خاندان کا تصور بھی ختم ہو کر رہ جائے گا۔‘‘
ویٹیکن نے اپنی اس دستاویز میں اس رجحان کی بھی مخالفت کی ہے کہ ‘مرد اور عورت کے مابین فرق کو سرے سے ختم ہی کر دیا جائے‘۔ اس کے علاوہ کلیسائے روم نے اس امر کی بھی وکالت کی ہے کہ اس پورے معاملے کو سمجھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ متنوع مکالمت کی بھی ضرورت ہے۔
کیتھولک کلیسا کے مطابق وہ اس معاملے میں تمام مذاہب اور عقائد کی تعلیمات کے لیے احترام کے جذبات کے ساتھ، کسی بھی عقیدے یا صنف کے لیے امتیازی سوچ سے قطعی طور پر دور رہتے ہوئے اور ہر قسم کے امتیازی رویوں کی نفی کرتے ہوئے اس بات کا آئندہ بھی قائل رہے گا کہ اس موضوع پر موجودہ صورت حال میں بہتری ‘سننے، غور کرنے اور تجاویز‘ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔