نئی دہلی:مہاراشٹر میں وقف بورڈ اور ریاستی حکومت کے متعلقہ محکمے کے مابین نزاع نے نئی شکل اختیارکر لی ہے جس میں جامعہ اشاعت العلوم اکلکواکے رئیس مولانا غلام محمد وستانوی کے خلاف ایف آئی آر پر بمبئی ہائی کورٹ کی طرف سے اسٹے کے بعد یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکومت سرکاری اداروں کے کام کاج میں حکومتی نمائندوں کے ذریعہ مبینہ سیاسی مداخلت بند کرے ۔
وقف بورڈ کے سابق رکن اور سپریم کورٹ میں بورڈ کی طرف سے عرضی گزار مسٹر حبیب فقیہ نے یہاں یو این آئی کو بتا یا کہ سپریم کورٹ میں بھی وقف ایکٹ کی دفعہ 52 اے کے تحت بورڈ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی پراسٹے مل گیا ہے ۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اب عدالت کو چاہئے کہ وہ وقف بورڈ کی آزادی کو یقینی بنائے تاکہ کسی طرح کی حکومتی مداخلت سے بورڈ کے کام کاج میں خلل نہ پڑے اوروقف ایکٹ کے جس دفعہ 52 اے کے تحت بورڈ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی پر حکم معطلی جاری ہوئی ہے اب اسی دفعہ کے تحت ریوینو کے ان ذمہ داراں کے خلاف کارروائی کی جائے جن پر وقف املاک پر قبضے کا الزام ہے ۔
مسٹر حبیب نے مزید بتایا کہ مولاناوستانوی پر جس 32 ایکڑ زمین پر قبضہ کرنے کا الزام ہے وہ اس لئے غلط اور مبنی بر عناد ہے کہ متذکرہ زمیں مولانا وستانوی کی ذاتی ملکیت میں نہیں اور وہ زمین صرف چھ ایکڑ کی ہے جسے متعلقہ ٹرسٹ کو وقف بورڈ کی منظوری سے 2003 میں لیز پر دیا گیا تھا۔ اس زمین پر تعلیمی ادارے چل رہے ہیں اور اس پر تعمیرات سرکاری منظور کے ساتھ کی گئی ہیں۔
مسٹر حبیب نے یہ بتاتے ہوئے کہ مولانا وستانوی نے ملی بہبود کے رخ پر قدم اٹھاتے ہوئے بی فارمیسی کالج شروع کرنے کا ایک متفقہ فیصلہ کیا اور زمین کی 30 سال کی لیز کی بورڈ سے 2017 میں منظوری بھی حاصل کر لی تھی، الزام لگایا کہ بورڈ کے چیئر مین نے اس منطوری نامے کو سرکار کے پاس نہیں بھیجا جو حتمی منظوری کے لئے ایک لازمی عمل تھا۔ مسٹر حبیب نے اقلیتی محکمے کے سکریٹری شیام تاگڑے پر بھی الزام لگایا کہ وہ کئی معاملے میں حد سے تجاوز کرکے بورڈ کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں اور وقف ایکٹ کی دفعہ 23 عمل کے بغیر سی او کی تقرری عمل میں لائی گئی جائ ہائی کورٹ نے باطل قرار دیا تھا۔
کہتے ہیں یہیں سے وقف بورڈ اور سرکار کے درمیان کشیدگی شروع ہوئی اور پھر ناگپور سترنجی پورہ بڑی مسجد کا تنازعہ کھڑا کیا گیا جہاں ایک احاطے میں 288 لوگوں کے گھر آباد ہیں۔مسٹر حبیب کا جو مولانا آزاد ایجوکیشنل فاونڈیشن کے کارگزار صدر بھی رہ چکے ہیں ، کہنا ہے کہ متعلقہ لوگ ٹرسٹ کی اجازت سے آباد ہیں جنہیں تین اکتوبر 2013 کی قرارداد کے مطابو لازمی ادائیگی کے بعد ریگولرائز کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس قرارداد کو منظور کرنے والوں کے خلاف بھی 52 اے کے تحت کارروائی کی مانگ کی گئی تھی جبکہ اس ایکٹ کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا ۔ وقف ایکٹ 100 کے تحت گڈ فیتھ پر اٹھا یا جانے والا کوئی قدم ٹھیک نظر نہیں آیا تو دفعہ 26 کے تحت اس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے ۔اس میں حکومت کی مداخلت کی مطلق گنجائش نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہائی کورٹ نے ان وضاحتوں کو مان کر 14 ستمبر 2018 کو اس پر بھی اسٹے کر دیا تھا۔