خان صاحب شہداء کی میتوں کی تدفین ہوچکی ہے، اب آپ کا آنا نہ آنا برابر ہے، یہ آپ کے سیاسی مخالفین نہیں تھے، جنہیں آپ شکست دے چکے ہیں۔ یہ پاکستان کے مظلوم لوگ تھے، جو اب اپنے پیاروں کو قبر اور دکھوں کو رب کے سپرد کرچکے ہیں۔ البتہ آپ اصل میں ہار گئے ہیں۔ عوام کی جیت آپ کی جیت ہوتی، آپ کی انا کی جیت اس عمران خان کی بھی ہار ہے، جو اپوزیشن میں انسان دوست اور مظلوم ہزارہ کا ہمدرد ہوا کرتا تھا۔
ہزارہ پاکستان کا وہ بدقسمت قبیلہ ہے، جو ہر دور حکومت میں دہشتگردی اور سماجی بائیکاٹ جیسے مسائل کا شکار رہا ہے۔ 2013ء میں حالات سنگین خراب ہوگئے تھے، جب ایک ایک واقعہ میں سینکڑوں لوگ شہید ہو رہے تھے۔ ان کی نسلی شناخت اتنی واضح ہے کہ انہیں آسانی سے پہچان لیا جاتا ہے اور دوسرا ان کی غالب اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے ہزارہ دیکھنے کے بعد لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ شیعہ ہی ہوں گے۔
تعزیت۔۔ پرسہ۔۔ دلاسہ، اب یہ حُجّت نہ کریں
ہم نے لاشیں دفن کر دیں آپ زحمت نہ کریں
بدقسمتی سے وطن عزیز بالعموم اور بلوچستان بالخصوص دہشتگردی کا شکار ہے، پاکستان، انسان اور اسلام دشمن قوتیں یہاں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔
ان کے لیے سب سے آسان ہزارہ کو نشانہ بنایا ہے۔ مذہبی طور پر شیعہ شناخت ایک انتہاء پسند گروہ کے لیے قتل کرنے کی کافی و شافی وجہ ہے۔ ہزارہ کا معاملہ بڑا حساس ہوگیا ہے، کیونکہ ان کی باقاعدہ نسل کشی کی جا رہی ہے، جس سے دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے حساس ہیں۔ ہزارہ کی مظلومیت اس قدر واضح ہے کہ ہر پاکستانی ان کے لیے درد دل رکھتا ہے۔
اس دہشتگردی نے کوئٹہ کے اس چھوٹے سے علاقے کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے، گھر مردوں سے خالی ہوگئے ہیں، معصومہ ہزارہ نے درست کہا کہ اب ہمارے گھر میں لاش اٹھانے والا کوئی نہیں رہا، اگر کسی نے کربلا دیکھنی ہو تو ہمیں دیکھ لے۔ ایک ایک لفظ دل میں پیوست ہونے والا ہے، ان لوگوں کی چیخ و پکار نے دنیا بھر کو متوجہ کیا، تمام بین الاقوامی میڈیا گروپس نے ان کے لیے آواز اٹھائی۔ اس واقعہ کو سیاسی بونوں اور فرقہ پرستی کی دلدل میں پھنسے لوگوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہا اور ہزارہ کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر مہم چلائی۔
معروف صحافی سبوخ سید نے اس غلیظ مہم کے حوالے سے لکھا: ایک مولوی صاحب نے واٹس ایپ پر ایک پوسٹ بھیجی، جس میں لکھا تھا کہ کوئٹہ میں ہزارہ کیمونٹی نے تیس سال پہلے بے شمار سنی قتل کیے اور سنیوں کی عورتوں کو اغوا کرکے لے گئے، ان کا ریپ کیا گیا۔
ان کے پستان کاٹ دیئے۔ میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ یہ واقعی تاریخ کا بدترین ظلم ہے۔ آپ ایسا کریں کہ ان عورتوں میں سے ایک دو کا انٹرویو میرے ساتھ کروا دیں۔ مولوی صاحب نے کل سے میسج پڑھ رکھا ہے لیکن جواب نہیں دے رہے۔
ایک اور صاحب کی پوسٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ ان ہزارہ کو ایران کی فنڈنگ ہے تو میں ان سے کہا کہ ممکن ہے آپ کی یہ بات بھی چار سو بیس فیصد درست ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی فنڈنگ کے باوجود یہ کوئلے کی کانوں میں کیوں اپنا چہرہ، ہاتھ اور پاؤں سیاہ کر رہے تھے۔
فرقہ واریت کے ماحول میں مولانا خادم حسین رضوی کے بیٹے اور تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولانا سعد رضوی صاحب نے ہزارہ کی حمایت میں بھرپور آواز اٹھائی اور ان ماوں، بہنوں، بیٹیوں کے درد کی آواز بنے، کہا بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ عمران خان نے ان کے درد کو محسوس نہیں کیا، کتوں کو وقت دیا اور ان مظلوموں کو وقت نہ دیا۔ میرے اور بہت سے لوگوں کے لیے ان کی تقریر حیرت کا باعث تھی کہ انہوں نے بغیر لگی لپٹی کے پوری طاقت کے ساتھ مظلوموں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
اس پورے واقعہ میں سب سے منفی کردار حکومت بلکہ وزیراعظم عمران خان نیازی صاحب کا رہا۔ جب کوئی قوم یا قبیلہ تشدد کا شکار ہوتا ہے تو لازمی سی بات ہے کہ وہ جذبات میں ہوتا ہے۔ وہ بہت سے ایسے مطالبات بھی کرتا ہے، جو عام حالات میں نہیں کیے جا سکتے، حکومتِ موجود کا یہ فرض ہوتا ہے کہ معاملے کو بند گلی میں جانے سے روکے۔
کمیٹی بنانے کا اعلان کرے اور دیگر بہت سے وقتی اقدامات ہوتے ہیں، جو معاملات کو بگڑنے سے بچا لیتے ہیں۔ شروع میں معاملے کو سنجیدہ ہی نہیں لیا گیا اور جب دھرنا آگے بڑھنے لگا تو وزیروں کو بھجوایا گیا اور بدقسمتی سے ان کی جو گفتگو لیک ہوئی، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
عمران خان صاحب کی سابقہ تقاریر کی وجہ عوام میں یہ توقع بجا طور پر موجود تھی کہ وہ تمام مصروفیات ترک کرکے کوئٹہ پہنچیں گے مگر وہ نہ آئے۔ ایسے میں شہداء کے لواحقین کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم ہمارے پاس تشریف لائیں، ہم براہ راست ان سے دکھ درد شیئر کریں گے۔ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورے پاکستان کے لوگوں کو احساس تحفظ دلائیں اور ان کے غموں میں شریک ہوں۔
وزیراعظم صاحب بار بار کے مطالبات کے باوجود نہیں آئے۔ کل خطاب فرمایا کہ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ وزیراعظم کو بلیک میل کیا جائے۔ جی وزیراعظم صاحب یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ اتنا بڑا سانحہ ہو جائے، بچیاں، مائیں اور بزرگ روڑوں پر سو رہے ہوں اور وزیراعظم کو بلانے کے لیے دھرنے دینے پڑیں۔ ہاں آپ نے بلیک میلر کی بات خوب کی، یہ گیارہ لاشیں بلیک میل کر رہی تھیں؟ وارثین بلیک میل کر رہے تھے؟ دنیا بھر میں پرامن انداز میں سڑکوں پر بیٹھے لوگ بلیک میل کر رہے تھے؟
آپ کا مسئلہ جو بھی ہو، آپ اہل پاکستان کے اعتماد پر پورے نہیں اترے۔ ہم نے تو خیر پہلے بھی لکھا تھا کہ تعزیت بلا کر اور مطالبہ کرکے نہیں کروائی جاتی، یہ تو صاحبانِ دل کا غم کے مارے دلوں سے غم بانٹ لینے کا نام ہے اور ہاں اپنے ہاں بلانے کا مطلب نفرت نہیں ہوتا بلکہ تعلق کا اظہار ہوتا ہے، جہاں آنے سے منع کیا جائے، وہاں نفرت ہوتی ہے اور ریاستیں اسے بغاوت سے تعبیر کرتی ہیں۔
خان صاحب شہداء کی میتوں کی تدفین ہوچکی ہے، اب آپ کا آنا نہ آنا برابر ہے، یہ آپ کے سیاسی مخالفین نہیں تھے، جنہیں آپ شکست دے چکے ہیں۔ یہ پاکستان کے مظلوم لوگ تھے، جو اب اپنے پیاروں کو قبر اور دکھوں کو رب کے سپرد کرچکے ہیں۔ البتہ آپ اصل میں ہار گئے ہیں۔ عوام کی جیت آپ کی جیت ہوتی، آپ کی انا کی جیت اس عمران خان کی بھی ہار ہے، جو اپوزیشن میں انسان دوست اور مظلوم ہزارہ کا ہمدرد ہوا کرتا تھا۔
آپ کے اس عمل نے آپ کو کتنا سیاسی نقصان پہنچایا؟ یہ تو کسی فارغ وقت میں بیٹھ کر حساب کتاب کر لیجیے گا۔ اب آپ کی خدمت میں کوئٹہ تشریف لانے پر یہ شعر زبان خلق ہوا ہے:
تعزیت۔۔ پرسہ۔۔ دلاسہ، اب یہ حُجّت نہ کریں
ہم نے لاشیں دفن کر دیں آپ زحمت نہ کریں