روس اور امریکا کے درمیان امریکا میں حالیہ صدارتی انتخابات میں ماسکو کی مبینہ مداخلت کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ روسی صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر باراک اوباما کی طرح کسی امریکی سفارت کار کو ملک بدر کرنے میں جلد بازی کا مظاہر نہیں کریں گے۔
دوسری جانب امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اوبامہ انتظامیہ کے فیصلے پرسخت برہم ہیں اور صدر پوتن کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تازہ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ پوتن سمجھ دار ہیں اور وہ امریکا کے خلاف کوئی بھی جوابی اقدام سوچ سمجھ کر ہی کریں گے۔
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی سفارت کاروں کو امریکہ بدر کیے جانے کے بعد سامنے آنے والے روسی صدر ولادی میر پوتن کے بیان کی تعریف کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ کسی امریکی سفارتکار کو روس سے نکلنے کا نہیں کہیں گے۔جمعہ کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’ مسٹر پوتن کی جانب سے معطل کیا جانا بڑا قدم ہے، میں ہمیشہ سے جانتا تھا کہ وہ بہت سمارٹ ہیں۔‘
یاد رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے امریکی انتخاب میں ہیکنگ کرنے کے الزام میں 35 روسی سفارتکاروں کو 72 گھنٹوں کے اندر امریکا سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔اس سے قبل روسی وزیرِ خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ انھوں نے صدر پوتن کو تجویز بھیجی تھی کہ روس جوابی کارروائی کرتے ہوئے 35 امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیں۔مسٹر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام واضح کرنے کے لیے اسے ’پِن‘ یعنی سب سے اوپر کیا تاہم ابھی یہ معلوم نہیں انھوں نے اپنے مختصر پیغام میں ’تعطل‘ کا لفظ کس اقدام کو روکنے کی جانب اشارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یاد رہے کہ نو منتخب امریکی صدر نے اس سے قبل امریکی انتخاب میں روسی ہیکنگ کے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا تھا۔مسٹر پوتن کے بیان سے قبل مسٹر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ اس صورتحال سے متعلق حقائق کے آگاہی کے لیے اگلے ہفتے امریکی انٹیلی جنس چیفس سے ملیں گے۔امریکا نے نو روسی اداروں پر پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں جن میں دو روسی انٹیلی جنس ایجنسیاں جی آر یو اور ایف ایس بی بھی شامل ہیںروسی سفارتکاروں کی ملک بدری کے حکم نامے کے بعد امریکہ نے روس کی جانب سے صدارتی انتخاب کے دوران ہیکنگ کے ذریعے مداخلت کے الزامات کے بارے میں اب تک کی سب سے تفصیلی رپورٹ بھی جاری کر دی ہے۔ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی اور ایف بی آئی نے 13 صفحات پر مبنی اس مشترکہ رپورٹ میں پہلی بار کسی ملک کو ہیکنگ کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ نے سرکاری طور پر اور باضابطہ طریقے سے ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے اکاؤنٹس کی ہیکنگ کا تعلق روسی سول اور فوجی انٹیلی جنس اداروں ایف ایس بی اور جی آر یو سے جوڑا ہے۔