میانمار یعنی برما کے رخائن صوبے کے تقریبا تین لاکھ روہنگیا مسلمان جو گذشتہ دو ہفتوں کے دوران بھاگ کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں وہ تمام شمالی اضلاع مونگدا، بوتھی دونگ اور راتھے دونگ سے آتے ہیں۔
یہ میانمار کے وہ آخری علاقے ہیں جہاں روہنگیا مسلمانوں ایک بڑی تعداد محض پناہ گزین کیمپوں تک محدود نہیں ہے۔
ان علاقوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ سڑکیں انتہائی خراب ہیں، یہاں جانے کے لیے حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے جو صحافیوں کو شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔
حکومت نے ان علاقوں میں 18 مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کے دورے کا انتظام کیا اور ہم نے اس موقعے کا فائدہ اٹھایا۔
اس دورے کا مطلب یہ تھا کہ ہم صرف ان مقامات اور لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جنھیں وہ ہمیں دکھانا چاہتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ایسی پابندیوں کے باوجود، آپ بہت کچھ دیکھ لیتے ہیں۔
حکومت کے اپنے دلائل بھی ہیں کہ انھیں مسلح بغاوت کا سامنا ہے لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کا اپنا تیار کردہ ہے۔
رخائن صوبے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی قدیم تاریخ ہے اور اس سے نمٹنا کسی بھی حکومت کے لیے ایک مشکل کام ہے۔
جب ہم رخائن صوبے کے دارالحکومت ستوے پہنچے تو ہمیں ہدایت دی گئی کہ کوئی گروپ سے الگ نہیں ہوگا اور آزادانہ طور کام نہیں کرے گا۔
شام کے چھ بجے سے کرفیو نافذ ہو گیا تھا اس لیے اندھیرے میں کسی کو نکلنے کی اجازت نہیں تھی ہم کسی خاص جگہ جانے کے لیے اجازت طلب کر سکتے تھے لیکن ہر بار سکیورٹی کے نام پر اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ میرا خیال ہے کہ انھیں ہماری سکیورٹی کی واقعی فکر تھی۔
میانمار کے اس نچلے علاقے میں سفر زیادہ تر پیچیدہ اور ناہموار راستوں اور دریاؤں سے تھا جس میں کشتی اپنی استعداد سے زیادہ بھری ہوئی تھیں۔ ستوے سے بوتھیڈونگ پہنچنے میں چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ وہاں سے ہم ایک گھنٹے تک مایو پہاڑیوں کے درمیان خراب سڑک پر مونگڈا تک سفر کرتے رہے۔ جیسے ہی ہم شہر میں داخل ہوئے ہمیں پہلا جلا ہوا گاؤں مایوتھو گيئی نظر آيا جہاں ناریل کے درخت تک جلے ہوئے تھے۔
یہاں ہمیں لانے کا حکومت کا مقصد یہ تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے جو منفی بیان آ رہے تھے اس وہ اپنی پوزیشن واضح کریں۔ بنگلہ دیش آنے والے پناہ گزینوں نے میانمار حکومت اور رخائن کی بھیڑ کے ہاتھوں دانستہ بربادی کی داستان بیان کی تھی اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی بات کہی تھی۔
لیکن پہلی ہی نظر میں ہمیں یہاں لانے کی حکومت کی کوشش ناکام نظر آنے لگی۔
سب سے پہلے ہمیں مونگڈوا میں ایک پرائمری سکول لے جایا گيا جو بے گھر ہندو خاندانوں سے بھرا تھا۔ ان سب کے پاس کہنے کے لیے ایک ہی کہانی تھی کہ کس طرح مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا اور وہ ڈر کر اپنے گھروں سے بھاگ نکلے۔ لیکن جو ہندو پناہ گزین میانمار سے بنگلہ دیش سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے ان سب کا کہنا تھا کہ رخائن کے مقامی بدھ مذہب کے ماننے والوں نے ان پر حملہ کیا تھا کیونکہ وہ روہنگیا کی طرح نظر آتے ہیں۔
سکول میں ہمارے ساتھ مسلح پولیس اور حکام تھے تو کیا ایسے میں وہ بے خوف ہو کر ہم سے بات کر سکتے تھے؟ ایک شخص نے مجھے بتانا شروع کیا کہ کس فوجیوں نے ان کے گاؤں پر فائرنگ کی تھی کہ بیچ ہی میں پاس میں بیٹھے شخص نے اسے ٹوکا۔
نارنجی اور لیس والے بلاؤز اور بھوری لنگی میں ملبوس ایک خاتوں نے بطور خاص ہمیں مسلمانوں کی جانب سے ہونے والے مظالم کو ڈرامائی انداز میں بتایا۔
پھر ہمیں ایک بدھ مندر میں لے جایا گیا جہاں ایک بدھ راہب نے ہمیں بتایا کہ مسلمانوں نے وہاں اپنے گھروں کو خود ہی جلا دیا۔ ہمیں ثبوت کے طور پر تصاویر دی گئیں جس میں وہ اپنا گھر جلا رہے تھے۔ یہ عجیب تھا۔
سفید حاجی ٹوپی والے مرد چھپروں کو نذر آتش کررہے تھے اور خواتین جنھوں نے لیس والا میز پوش اپنے سرپر ڈال رکھی تھی وہ عجیب ڈرامائی انداز میں تلوار چلا رہی تھیں۔
بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان میں سے ایک عورت وہی تھی جو سکول میں ڈرامائی انداز میں مسلمانوں کے مظالم گنا رہی تھی اور تصویر میں موجود ایک بے گھر ہندو مرد بھی سکول میں موجود تھا۔
ان لوگوں نے جعلی تصویریں بنائی تھیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ مسلمان آگ لگا رہے ہیں۔
ہم سرحد کی سیکورٹی کے ذمہ دار مقامی وزیر کرنل فون ٹینٹ سے ملے۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح بنگالی دہشت گردوں نے روہنگیا کے دیہاتوں پر قبضہ کر لیا۔
وہ اراکان روہنگیا سیلویشن آرمی (اے آر ایس اے) کو بنگالی دہشت گرد کہتے ہیں۔
کرنل فون ٹینٹ نے دعوی کیا کہ اے آر ایس اے والوں گاؤں میں لوگوں کو مجبور کیا کہ ہر گھر سے ایک شخص کو لڑنے کے لیے دیا جائے۔ جس نے انکار کیا ان کے گھر جلا دیے گئے۔ انھوں نے جنگجوؤں پر بارودی سرنگ بچھانے اور تین پلوں کو اڑا دینے کا بھی الزام لگایا۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا تمام جلے ہوئے گاؤں کو جنگجوؤں نے برباد کیا ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ حکومت کا یہی موقف ہے۔ جب فوج کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کہا: ‘کیا ثبوت ہے؟’ انھوں نے روہنگیا خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان خواتین کو دیکھو جو استحصال کا دعوی کر رہی ہیں، کیا کوئی ان کا ریپ کرنا چاہے گا؟
جن گنے چنے مسلمانوں سے مونگڈوا میں ہماری ملاقات ہوئی وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ کیمرے میں کچھ بھی کہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ہم اپنے پہرے داروں سے نظر بچا کر چند مسلمانوں سے بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں بہت تکلیف ہے۔ سکیورٹی فورسز انھیں یہاں سے کہیں جانے نہیں دیتی ہے انھیں کھانے کی قلت ہے اور وہ شدید خوف کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔
ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ بھاگ کر بنگلہ دیش جانا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیڈروں نے حکام کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ وہ یہیں رہیں گے۔ اس لیے وہ مجبور ہیں۔
ایک بنگالی بازار میں جہاں اب خاموشی چھائی ہے میں نے ایک نوجوان سے پوچھا کہ انھیں کس کا ڈر ہے تو اس نے بتایا حکومت کا۔
مونگڈوا کے باہر جہاں ہمیں واقعتا جانا تھا وہ سمندری شہر الیل تھان کیاو تھا۔ ان مقام میں سے ایک تھا جہاں اے آر ایس اے کے جنگجوؤں نے 25 اگست کو حملہ کیا تھا۔ جب ہم وہاں جا رہے تھے راستے میں ہمیں بہت سے گاؤں ملے جو مکمل طور پر ویران تھے۔ ہم نے خالی چھوڑ دی جانے والی کشتیاں، بکریاں اور مویشی دیکھے، بس وہاں انسان نہیں تھے۔
الیل تھان کیاو پوری طرح سے زمیں بوس ہو چکا تھا۔ یہاں تک میڈیسن ود آؤٹ بارڈر کے بورڈ والا کلینک بھی جل چکا تھا۔
شمال کی سمت ہمیں چار جگہوں سے دھوئيں اٹھتے نظر آئے اور ہم نے خودکار بندوقوں سے فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ ہم نے اندازہ لگایا مزید کچھ گاؤں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔
پولیس لیفٹنینٹ آنگ کیاو موئے نے ہمیں بتایا کہ انھیں اس حملے کی خبر پہلے ہی دی جا چکی ہے۔ انھوں نے بتایا کے غیر مسلم آبادی کو تحفظ کے طور پر بیرک میں بلا لیا گیا اور اس کے لوگ بندوق، تلوار اور دیسی بموں سے لیے حملہ آور سے تین گھنٹے تک لڑتے رہے یہاں تک کہ انھیں بھگا دیا۔
ان کے مطابق اس میں 17 حملہ آور کے ساتھ ایک امیگریشن افسر کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد وہاں کی مسلم آبادی بھاگ گئی۔
بہر حال وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ آخر حملے کے دو ہفتے بعد اب تک ان قصبوں کے بعض حصوں سے دھواں کیوں اٹھ رہا ہے۔ انھوں بادل ناخواستہ جواب دیا کہ شاید کچھ مسلمان رک گئے تھے جو اب اپنے گھروں کو بھاگنے سے پہلے نذر آتش کر رہے ہیں۔
اور جب ہم الیل تھان کیاو سے واپس آ رہے تھے تو ایک غیر متوقع واقع پیش آيا۔
ہم نے دیکھا کے دھان کے کھیت میں پیڑوں کے پیچھے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ یہ سڑک سے دور ایک اور گاؤں تھا جو جل رہا تھا۔ اور آگ ابھی ہی شروع ہوئی تھی۔ ہم سب ایک ساتھ گاڑی روکنے کے لیے چلا پڑے۔ اور جب گاڑی رکی تو ہم سب حکومت کےاپنے محافظوں کو حیرت زدہ چھوڑ کر اس طرف دوڑنے لگے۔ پولیس پیچھے پیچھے ہمارے ساتھ آئی اور اس نے کہا کہ گاؤں میں جانا محفوظ نہیں اس لیے وہ رک گئے اور ہم ان سے پہلے گاؤں میں داخل ہو گئے۔
ہر طرف سے جلنے اور چٹخنے کی آواز آ رہی تھی۔ کیچڑ زدہ راستے پر عورتوں کے کپڑے لتھڑے پڑے تھے اور وہ واضح طور پر مسلم خواتین کے کپڑے تھے۔ اور راستے میں گٹھیلے نوجوان تلواروں اور برچھوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ 18 صحافیوں کو اپنی جانب دوڑتے آتے دیکھ کر حیران تھے۔ انھوں نے کیمرے سے بچنے کی پوری کوشش کی۔ جبکہ دو گاؤں کے اندر بھاگے اور اپنے گروپ کے آدمیوں کو لے کر جلد بازی میں وہاں سے نکل گئے۔
انھوں نے بتایا کہ رخائن کے بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ان میں سے ایک سے جلدی جلدی بات کی جس نے یہ تسلیم کیا کہ انھوں نے پولیس کی مدد سے گھروں کو آگ لگائی ہے۔
جب ہم گاؤں میں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایک مدرسے کی چھت کو تازہ تازہ آگ لگائی گئی تھی۔ عربی میں لکھی ہوئی کتابیں باہر پھینکی گئی تھیں اور بکھری ہوئی تھیں۔ راستے میں ایک پلاسٹک کا جگ کا خالی مگ چھوٹ گیا تھا جس میں سے پیٹرول رس را تھا۔
یہ مسلمانوں کا گاؤں گاؤڈو تھار یا تھا۔ وہاں کسی باشندے کا کوئی نشان نہیں تھا۔ رخائن کے لوگ جنھوں نے آگ لگائی تھی وہ گشتی پولیس کے سامنے گاؤں سے نکل رہے تھے۔ ان میں سے بعض کے ہاتھوں میں وہ سامان تھے جو انھوں نے لوٹے تھے۔
آتش زنی کا یہ واقعہ اس جگہ پیش آیا تھا جہاں کئی بڑے پولیس بیرک قائم تھے اور کسی نے بھی اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔