ممبئی: ہندی فلموں کی سدا بہار اداکارہ وحیدہ رحمان اپنے نام کی مناسبت سے لاثانی اداکاری سے تقریبا پانچ عشروں سے ذہن و دل پر راج کرتی آ رہی ہیں۔
وحیدہ رحمان کی پیدائش 03 فروری 1938 کو تمل ناڈو کے چے گلپٹو میں ہوئی تھی۔ ان کے والد ضلع مجسٹریٹ تھے ۔ بچپن سے ہی وحیدہ رحمان کا رجحان رقص اور موسیقی کی طرف تھا۔ والد نے رقص کے تئیں ننھی وحیدہ کے رجحان کو پہچان کر اسے اس راہ پر چلنے کے لئے حوصلہ افزائی کی اور انہیں بھرت ناٹیم سیکھنے کی اجازت دے دی۔
13 سال کی عمر میں وحیدہ رحمان شاندار رقص کرنے لگیں اور اسٹیج پر آگئیں۔ جلد ہی ان کے رقص کی تعریف چہار جانب ہونے لگی۔ فلم ساز انہیں اپنی فلم میں کام کرنے کے لئے پیش کش کرنے لگے لیکن ان کے والد نے فلم سازوں کی پیش کش یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ وحیدہ ابھی بچی ہے اور یہ عمر اس کے پڑھنے لکھنے کی ہے ۔
اس عرصے میں ان کے والد کی اچانک موت ہو گئی اور گھر کی معاشی ذمہ داری وحیدہ پر آ گئی۔ والد کے ایک دوست کی مدد سے وحیدہ کو ایک تیلگو فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کامیاب رہی۔ فلم میں وحیدہ کی اداکاری کوناظرین نے کافی پسند کیا۔ حیدرآباد میں فلم کے پریمیئر کے دوران پروڈیوسر گرو دت کے ایک ڈسٹري بیوٹر فلم میں وحیدہ کی اداکاری کو دیکھ کر کافی متاثر ہوئے ۔ انہوں نے گرودت کو وحیدہ سے ملنے کا مشورہ دیا۔ وحیدہ چھوٹی تھیں اس لئے وحیدہ کی جگہ ان کی ماں گرو دت سے ملنے گئیں۔ بعد میں گرو دت نے وحیدہ کی اسکرین ٹیسٹ کیلئے بلایا اور اپنی فلم ‘سي آئی ڈی’ میں کام کرنے کا موقع دیا۔
فلم بنانے کے دوران جب گرو دت نے وحیدہ کو نام تبدیل کرنے کے لئے کہا تو وحیدہ نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام وحیدہ ہی رہے گا۔ دراصل وحیدہ کا ایک مطلب ہوتا ہے لاثانی ۔ اس لئے وہ اپنا نام نہیں بدلنا چاہتی تھیں۔بعد میں وحیدہ رحمان نے اپنی شاندار اداکاری سے اپنے نام کو لاثانی بنادیا۔
سال 1957 میں وحیدہ رحمن کو ایک بار پھر گرو دت کی فلم ‘پیاسا’ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کی شوٹنگ کے وقت فلم اداکارہ کے طور پر مدھوبالا کو منتخب کیا گیا تھا لیکن گرودت کو اعتماد تھا کہ فلم کے کردار کے ساتھ صرف وحیدہ رحمان ہی انصاف کرسکتی ہیں۔
فلم میں وحیدہ رحمان نے ایک طوائف کا کردار نبھایا تھا۔ گلابو کے کردار کو وحیدہ رحمان نے اتنے سہل انداز میں اور بااثر طریقے سے پیش کیا کہ ناظرین ان کی اداکاری کے قائل ہو گئے ۔اس کے بعد وحیدہ رحمان کو سال 1959 میں گرودت کی ہی فلم ”کاغذ کے پھول’ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ‘ کاغذ کے پھول’ کے پریمیئر کے دوران وحیدہ رحمان نے کہا تھا فلم بہت بوجھل ہے ۔ نہیں چلے گی۔ ان کی اس بات پر اسکرپٹ رائٹر ابرار علوی نے کہا تھا .” تم ابھی بچی ہو تم کیا سمجھتی ہو”۔ ابتدا میں فلم نہیں چلی۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ فلم اپنے وقت سے کافی آگے کی تھی۔ لیکن بعد میں اسی فلم کو لوگوں نے کافی پسند کیا۔یہ فلم ملک کی عظیم ترین آرٹ فلموں میں شمار کی گئی۔
سال 1960 میں وحیدہ رحمان کی یادگار فلم ‘چودھویں کا چاند ‘ ریلیز ہوئی جو سلور اسکرین پر سپر ہٹ ہوئی۔ اس فلم کے اس گانے ” چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو” کی وجہ سے ناظرین وحیدہ کے دیوانے ہو گئے اور انہیں کہنا پڑا کہ وہ اپنے نام کی مناسبت سے لاثانی ہیں۔
سال 1962 میں وحیدہ رحمان کی فلم ‘صاحب بی بی اور غلام’ ریلیزہوئی۔ فلم کی شوٹنگ کے وقت وحیدہ رحمان چھوٹی بہو کے کردار کو نبھانا چاہتی تھیں لیکن اس کردار کے لئے اداکارہ مینا کماری کو مناسب سمجھا گیا۔ اس بات پر وحیدہ کافی دکھی ہوئیں۔ وحیدہ کا دل رکھنے کے لیے فلم ڈائریکٹر نے چھوٹی بہو کے طور پر اس کاا سکرین ٹیسٹ لیا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں رہیں۔
ڈائریکٹر ابرار علوی ہر قیمت پر فلم میں وحیدہ کو رکھنا چاہتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے وحیدہ کو جوا کا کردار ادا کرنے کے لیے راضی کر لیا۔ اگرچہ یہ کردار چھوٹی بہو کے کردار جتنا اہم نہیں
تھا۔ اس کے باوجود وحیدہ رحمان نے اپنی چھوٹی سی کردار میں جان ڈال دی اور ناظرین کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ سال 1965 میں وحیدہ رحمان کے فلمی کیریئر کی ایک اور اہم فلم ‘گائیڈ’ ریلیز ہوئی۔ فلم میں وحیدہ رحمان کا روزی کا کردار منفی تھا۔ شادی شدہ عورت کسی اور کے ساتھ رہے اور بعد میں اسے جیل بھجوا دے ۔ ناظرین اسے قبول نہیں کر سکیں گے اور بہت سے لوگوں نے وحیدہ کو اس کردار کو نبھانے سے منع کیاْ۔ اس کے باوجود وحیدہ رحمان نے اسے چیلنج کے طور پر لیا اور نہ صرف اپنے بااثر اداکاری سے ناظرین کو اپنا دیوانہ بنایا بلکہ وہ بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازی گئیں۔
سال 1969 میں آئی فلم ‘خاموشی’ میں وحیدہ کی مختلف طرح کی اداکاری کو ناظرین کو دیکھنے کو ملا۔ فلم میں وحیدہ نے نرس کا کردار نبھایا جو پاگل مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود ہی بیمار ہو جاتی ہے ۔انہوں نے تمام مصائب کو وحیدہ نے اپنے آنکھوں اور چہرے کی تاثر سے اس طرح پیش کیا جیسے وہ اداکاری نہ کررہی ہوں بلکہ حقیقی زندگی جی رہی ہوں۔
ستر کے عشروں میں وحیدہ رحمان نے کیریکٹر اداکاری شروع کردی۔ ان فلموں میں ”عدالت، کبھی کبھی، ترشول، نمک حلال، ھمت، متوالا، پورٹر، مشعل، اللہ رکھا، چاندنی، لمحے ”اہم ہیں۔ اس کے بعد وحیدہ رحمان نے تقریبا 12 سال تک فلم انڈسٹری سے کنارہ کش ہوگئیں۔ سال 2001 میں وحیدہ رحمان نے اپنے کیریئر کی نئی اننگز شروع کی ۔” اوم جے جگدیش، واٹر، رنگ دے بسنتی، دہلی 6 ”جیسی فلموں سے شائقین کے کو اپنا متوالا بنالیا۔
ان کی زندگی 75 سے بھی زیادہ بہاریں دیکھ چکی ہے ۔ وحیدہ رحمان آج بھی اسی جوش خروش کے ساتھ اپنے کام میں منہمک ہیں۔