شعلہ بیان مقرر اور خطے میں ایران کی سرپرستی میں قائم مزاحمت کے محور کے اہم رکن سید حسن نصر اللّٰہ نے 1992 میں حزب اللّٰہ کی قیادت سنبھالی تھی۔
مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں 1960 میں پیدا ہونے والے حسن نصراللّٰہ اپنے پیشرو عباس الموسوی کے اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹر سے قتل کے بعد 1992 میں 32 سال کی عمر میں حزب اللّٰہ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
انہوں نے عراق کے شہر نجف میں تین سال تک سیاست اور قرآن کی تعلیم حاصل کی، یہیں ان کی ملاقات لبنانی امل ملیشیا کے رہنما سید عباس موسوی سے ہوئی۔
1978 میں حسن نصراللّٰہ کو عراق سے بے دخل کر دیا گیا، لبنان کے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آنے کے بعد حسن نصراللّٰہ نے امل تحریک میں شمولیت اختیار کرلی، انھیں وادی بقاع میں امل ملیشیا کا سیاسی نمائندہ مقرر کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کے 1982 میں بیروت پر حملے کے بعد حسن نصراللّٰہ امل سے علیحدہ ہوکر حزب اللّٰہ میں شامل ہوئے، حسن نصراللّٰہ کی قیادت میں حزب اللّٰہ اسرائیل کی ایک اہم مخالف تنظیم کے طور پر ابھری۔
انھوں نے اسرائیلی افواج کے خلاف چھوٹے پیمانے پر جنگ کی پالیسی اپنائی اور ان کی یہ مزاحمتی تحریک 2000 میں 22 سال بعد جنوبی لبنان سے اسرائیلی افواج کے انخلا کا اہم سبب بنی۔
حسن نصراللّٰہ نے 2004 میں اسرائیل اور حزب اللّٰہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اس معاہدے کو عرب دنیا میں حزب اللّٰہ اور حسن نصراللّٰہ کی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔
2005 میں لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللّٰہ نے ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک ثالث کا کردار بھی نبھایا۔
حسن نصر اللّٰہ کا اصرار تھا کہ اسرائیل بدستور ایک حقیقی خطرہ ہے۔ حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے، حزب اللّٰہ لبنان، اسرائیل سرحد کے ساتھ تقریباً روزانہ اسرائیلی فوجیوں سے لڑتی رہی ہے۔