کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے بیماری کا دوسرا ہفتہ بہت اہمیت رکھتا ہے جس کے دوران اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی علامات میں بہتری آنے لگتی ہے مگر کئی ایسا نہیں بھی ہوتا۔
درحقیقت کچھ افراد کی حالت زیادہ بدتر ہونے لگتی ہے حالانکہ پہلے وہ کچھ بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں اور یہ اس بیماری کی علامات کی پیشرفت کے پراسرار ترین عناصر میں سے ایک ہے۔
اگرچہ اس بیماری کی علامات بہت تیزی سے پڑھتی ہے مگر ان کا طویل دورانیہ اسے انفلوائنزا یا سانس کی ملتی جلتی بیماریوں سے الگ کرتا ہے۔
وینڈربیلٹ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے پروفیسر ولیم اسکیفنر کے مطابق ‘جب ایک بار مریض وینٹی لیٹر پر چلاجائے تو ان کا اس مشین پر رہنے کا دورانیہ دیگر بیماریوں جیسے فلو کے مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے بلکہ ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہوجاتی ہے’۔
تو آخر مریضوں کی حالت اچاننک بدتر کیوں ہوجاتی ہے؟ اور وہ کونسے افراد ہین جن میں علامات کی شدت بڑھنے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے؟
کووڈ 19 جسم میں کیسے پھیلتا ہے؟
یہ سمجھنے کے لیے کہ کچھ افراد کی حالت دیگر کے مقابلے زیادہ جلد بہتر کیسے ہوجاتی ہے، ہمیں پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس کیسے جسم کو متاثر کرتا ہے۔
جیسا آپ کو علم ہوگا کہ نیا نوول کورونا وائرس نظام تنفس کو متاثر کرنے والا وائرس ہے، جب ایک متاثرہ فرد چھینک، کھانسی یا کسی سطح کو چھوتا ہے تو صحت مند افراد منہ سے خارج ہونے والے ذرات یا ان ذرات سے آلودہ اشیا کے باعث وائرس کی زد میں آسکتا ہے۔
ایک بار ناک یا منہ میں پہنچنے کے بعد وائرس ان خلیات کو نشانہ بناتا ہے جس میں ایک ریسیپٹر ایس 2 ہوتا ہے جو کہ گلے کے آخر میں اور نتھے کی گزر گاہ میں موجود ہوتے ہیں۔
برینٹ یونیورسٹی کی پروفیسر کرسٹین ہوکینیس کے مطابق ‘یہ ایک اہم ریسیپٹر ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو ریگولیٹ کرتا ہے، جس کی سطح پر یہ وائرس اسے کھولنے کا راستہ ڈھونڈتا ہے اور پھر خلیات میں داخل ہوکر اس کی مشینری کو اپنی نقول بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے’۔
انہوں نے کہا ‘ایک بار جب وہ اپنی متعدد نقول بنالیتا ہے تو یہ نئے وائرسز اس خلیے سے نکل جاتے ہیں اور مزید خلیات کو متاثر کرنے لگتے ہیں، کچھ کیسز میں تو یہ وائرس ایک جگہ محدود رہتا ہے جبکہ دیگر کیسز میں یہ وائرس پھیپھڑوں کی گہرائی میں جاکر اس عضو کے خلیات کو متاثر کرنے لگتا ہے’۔
نقول بنانے کے ساتھ یہ وائرس پھیپھڑوں کی نالیوں میں جمع ہونے لگتا ہے جس سے ورم پیدا ہوتا اور کھانسی ہوتی ہے۔
پروفیسر ولیم اسکیفنر بتاتے ہیں ‘اس کے ساتھ ساتھ جسم کا ورم کے حوالے سے ردعمل متحرک ہونے لگتا ہے اور وہ وائرس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے گلے کی سوجن، کھانسی اور بخار کا سامنا وہتا ہے’۔
کھانسی کا مطلب بلغم کا اخراج ہوتا ہے، بخار وائرس کے پھیلنے کی رفتار سست کرتا ہے یعنی نقول بننے کا عمل سست ہوجاتا ہے، یہ معتدل بیماری کی علامات ہیں۔
ایک ہفتے یا 10 دن کی جنگ کے بعد بیشتر افراد کا مدافعتی نظام وائرس پر قابو پانے کے قابل ہوجاتا ہے۔
پروفیسر کرسٹین ہوکینیس کے مطابق ‘اتنا وقت مدافعتی ردعمل کے لیے کافی ہوتا ہے، جس کے دوران جسم میں مختصر المدت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے، تاہم اگر یہ جنگ جاری رہے اور وائرس مدافعتی نظام پر قابو پالے تو اسے کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے، جس سے وائرس کے پھیلنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور وہ پھیپھڑوں کے مزید حصوں تک پہنچ جاتا ہے’۔
ولیم اسکیفنر نے بتایا کہ ایک بار جب وائرس پھیپھڑوں کی نالیوں میں داخل ہوجائے تو پھر وہ پھیپھڑوں کے ٹشوز کے افعال میں مداخلت کرستکا ہے جس کے نتیجے میں نمونیا سامنے آتا ہے، یہ عموماً اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ اب وائرس کو معتدل نہیں سمجھا جانا چاہیے’۔
لوگوں کی حالت اس کے بعد بھی بہتر ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
تو 2 ہفتے بعد حالت بگڑنے کیوں لگتی ہے؟
جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
پروفیسر کرسٹین ہوکینیس کے مطابق ‘جارحانہ فطرت رکھنے والے وائرسز جیسے یہ نیا کورونا وائرس مدافعتی گنجائش کو آزماتے ہیں’۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
کئی بار تو نوجوان اور صحتمند افراد بھی اس مرحلے میں بہت زیادہ بیمار ہوجاتے ہیں۔
پروفیسر کرسٹین ہوکینیس کا کہنا تھا ‘ دو ہفتے میں مدافعتی نظام کو اس وائرس پر قابو پالینا چاہیے، ایسے افراد جو پہلے سے کسی مرض کا شکار ہوں ، زیادہ عمر کے ہوں یا مدافعتی نظام درست طریقے سے کام نہ کررہوں، وہ اس توازن کو برقرار نہیں رکھ پاتے، ان کو ابتدا میں کچھ ریلیف محسوس ہوتا ہے، مگر پھر حالات قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں’۔
پروفیسر ولیم نے بتایا کہ جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
ایسا ہی کچھ پھیپھڑوں سے باہر جسم کے دیگر حصوں میں بھی ہوتا ہے اور ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ وائرس دیگر اعضا جیسے دل، جگر اور گردوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پروفیسر کرسٹین کے مطابق یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اچھے مدافعتی ردعمل اور نقصان دہ ردعمل کا فرق ظاہر ہونے لگتا ہے، اگر وائرس کو مدافعتی ردعمل کنٹرول کرلیتا ہے تو مریض صحتیاب ہوجاتا ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا حالت نازک ہوجاتی ہے۔
ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا کہ دوسرے ہفتے اور علامات کی دوسری لہر اکثر مریضوں کو آئی سی یو تک پہنچا دیتی ہے۔
اگر مدافعتی خلیات نقصان پہنچاتے رہے اور زیادہ ورم پیدا کرنے والے کیمیکلز کی مقدار بڑھائیں تو جسمانی سیال معمول کے مطابق خارج نہیں ہوتا اور پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے، جس سے حالت خراب ہوتی ہے جبکہ خون میں آکسیجن کی سطح گر جاتا ہے، جس پر وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔
موت کا خطرہ کس وقت سب سے زیادہ ہوتا ہے؟
گزشتہ مہینے چین میں طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے کسی مریض کی موت اوسطاً 18.5 دن میں واقع ہوسکتی ہے۔
تحقیق میں ووہان کے جن ین تان ہسپتال اور ووہان پولمونری ہسپتال میں 29 دسمبر 2019 سے 31 جنوری 2020 تک داخل ہونے والے 191 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔
یہ پہلی تحقیق ہے جس میں سنگین علامات کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔
دونوں ہسپتالوں میں یکم فروری تک ایسے مریضوں کو داخل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی علامات کی شدت بہت زیادہ تھی اور اس عرصے کے دوران 137 ڈسچارج جبکہ 54 ہلاک ہوگئے تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ڈسچارج ہونے کے وقت کا اوسط دورانیہ 22 دن تھا جبکہ موت کا اوسط دورانیہ 18.5 دن تھا۔
ریکور کرنے والے افراد میں بخار کا اوسط دورانیہ 12 دن کے قریب تھا جو کہ ہلاک ہونے والوں میں بھی اتنا ہی تھا، مگر صحت مند ہونے والوں میں 50 فیصد کے قریب افراد کو ہی کھانسی کی شکایت ہوتی ہے جبکہ سانس لینے میں مشکل کی شکایت 13 دن کے بعد کم ہونے لگتی ہے۔
جہاں تک اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کا تعلق ہے، ان میں عفونت کا آغاز 9ویں دن شروع ہوجاتا ہے جبکہ گردے یا دل کی شدید انجری 15ویں دن تک ہوسکتی ہے۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جو مریض بچ جاتے ہیں، وہ وائرس کو 37 دن تک کسی صحت مند افراد میں منتقل کر سکتے ہیں، یہ دورانیہ سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ طویل ہے۔
چین کے چائنا۔ جاپان فرینڈشپ ہسپتال اور کیپیٹل میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر بن کاﺅ نے بتایا کہ وائرس کے جھڑنے کے دورانیے میں اضافے کو ہماری تحقیق کے دوران دیکھا گیا جو مصدقہ کیسز میں الگ رکھنے کی احتیاطی تدابیر اور اینٹی وائرل علاج کے حوالے سے رہنمائی میں اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا ‘مریضوں کو ہسپتال سے گھر جانے کی اجازت دینے سے قبل کووڈ 19 کے نیگیٹو ٹیسٹ لازمی قرار دیئے جانے چاہیے’۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ہسپتال میں داخل 30 فیصد افراد ہائی بلڈ پریشر کے شکار تھے جبکہ 19 فیصد کو ذیابیطس کا عارضہ تھا، یہ دونوں امراض کورونا وائرس سے ہلاکت کا باعث بننے والے اہم عناصر سمجھے جارہے ہیں، جبکہ زیادہ عمر اور خون جمنا بھی موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ زیادہ عمر، داخلے کے وقت عفونت کی علامات، ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس جیسے امراض وغیرہ اموات کے اہم اسباب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ عمر کے افراد میں عمر کے ساتھ مدافعتی نظام میں آنے والی کمزوری اور ورم وائرس کے پھیلنے کے عمل کو بڑھا سکتا ہے اور اس سے مزید ورم پیدا ہوتا ہے جو دل، دماغ اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتا ہے۔
تحقیق کے دوران محققین نے صحت یاب ہونے والے اور ہلاک ہونے والے افراد کے کلینیکل ریکارڈ، علاج کا ڈیٹا، لیبارٹری نتائج اور دیگر ڈیٹا کا موازنہ کیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ ہلاک ہونے والے مریضوں کے معمر ہونے (اوسطاً 69 سال عمر) ہونے اور اعضا کے کام نہ کرنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے، جبکہ عفونت جیسے عناصر بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔
سنگین کیسز کے شکار افراد میں خون کے سفید خلیات کی شرح بھی کم ہوتی ہے، انٹرلیوکین 6 (ورم اور دائمی امراض کا بائیومیکر) کی سطح بڑھ جاتی ہے جبکہ ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والے ٹروفونین آئی کی حساسیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان عناصر کو یہ تعین کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ کن مریضوں کو ہسپتال میں داخلے کے وقت زیادہ خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔