‘ کبھی اس کے کھانے کی تعریف نہیں کی، سوچا اسے پتہ ہوگا’
‘کبھی اس سے یہ نہیں کہا کہ تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو، سوچا اسے پتہ ہوگا۔
‘کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں، سوچا اسے پتہ ہوگا’
یہ مکالمے 52 سال کے ایک شخص (اداکار سنجے مشرا) کے ہیں جو روزانہ دفتر جاتے ہیں۔ نوکری کرتے ہیں اور خاندان کا خیال رکھتےہیں۔ ان کے لیے شادی کا بس یہی مطلب ہے۔
لیکن ان کی بیوی انھیں صرف ذمہ داری کہتی ہیں، محبت نہیں۔ انھیں اس کے ساتھ زندگی میں تھوڑی سی محبت بھی چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں محبت، عشق، رومانس جیسے سارے الفاظ اور جذبات و احساسات کو لڑکپن اور نوجوانوں سے منسلک کر کے دیکھا جاتا ہے لیکن کیا 40 یا 50 کی عمر کے بعد زندگی میں محبت کی ضرورت یا گنجائش نہیں رہ جاتی؟ اگر ہوتی بھی ہے تو دنیا بھر کے مسائل۔ نوکری، گھر اور خاندان کے درمیان کہیں کھو سی جاتی ہے؟
رواں ہفتے ‘انگلش’ میں کہتے ہیں’ فلم دیکھنے کے بعد ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا۔
اس فلم میں تین جوڑوں کی کہانی ہے جن کے لیے محبت کے مختلف معانی ہیں۔
کہانی 52 سالہ یش بترا (سنجے مشرا) اور ان کی بیوی کرن (اكاولی) کے گرد گھومتی ہے جن کی زندگی میں اب کوئی رومانس بچا ہی نہیں۔
وہ کوئی ولن نہیں ہے، لیکن درمیانی عمر میں بھی محبت ہوتی ہے اور اسے بتایا جاسکتا ہے کہ یہ شاید اس نے سیکھا نہیں ہے۔