اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی فرقہ پرستی کا پارہ عروج پر آجاتا ہے‘ گجرات کے مسلمانوں میں ایک واضح خطرہ ہے۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار کی دیگر گروہ جیسے بجرنگ دل اور وی ایچ پی ریاستی اسمبلی میں 150تا182سیٹوں کو نشانہ بنانے کی مہم پر لگ جاتے ہیں۔
مسلمان حالیہ تبدیلیوں سے پریشان ہیں۔اترپردیش میں تاریخی کامیابی کے بعد بلند حوصلے والے سنگھ پریوار کے عناصر پوری گجرات میں اثر انداز ہورہے ہیں۔
احمد آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی نے کہاکہ ’’ ایک بار پھر رام مندر کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔
مشہور علاقوں کی دیواروں پر راتو ں رات تحریر رونما ہورہی ہے اور ہندؤں سے کہا جارہا ہے کہ لو جہا دسے ہوشیار ہوجاؤ‘۔اس کا مقصد فرقہ وارانہ درجہ حرارت میں اضافہ کرنا ہے جو پولرائزیشن میں مددگار ثابت ہوگا‘‘۔
اس قسم کی تحریریں احمد آباد کے مشہور علاقوں میں حالیہ دنوں کے دوران دیکھی گئی ہیں۔پچھلے کچھ دنوں میں ریاست کے اندر مسلمانوں کے درمیا پیش ائے سلسلہ وار واقعات کی طرف سماجی کارکنوں اشارہ بھی کیا۔
ضلع پٹن کے واڈا والی گاؤں میں مسلمانوں کے خلا ف ہوئی تشددکے بعد سوراشٹر میں امریلی ضلع کے سوار کنڈال ٹاؤن میں بھی پرتشدد تصادم پیش آیا۔
ذرائع کے مطابق فساد ہندواور مسلم کمیونٹی کے دو طلبہ کے درمیان معمولی جھگڑے کے بعد ہوئی ‘ جس میں سے ایک کا تعلق سوار کنڈلا سے تھا اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب ایک مسلم لڑکے کے ساتھ ہندو لڑکی کو بیٹھے ہوئے دیکھا گیا۔
مذکورہ سماجی جہدکاروں نے کیچ سے کہاکہ گاؤں کے وہ لوگ ڈرے ہوئی ہیں کیونکہ معمولی جھگڑے ‘ تصادم سنبھالنے کی کوشش کو فرقہ پرستی کا رنگ دیا جارہاہے جس کی وجہہ سے جانی او رمالی نقصان کا بڑا خوف ہے
سماجی کارکن رفیع ملک نے کہاکہ ’’ ہم نے کمیونٹی کے لوگوں سے کہاکہ وہ شرپسندوں کی کوششوں پر مشتعل نہ ہوں اور اس پر نہ ہی کوئی ردعمل پیش کریں۔
نوجوانوں سے مسلسل کہہ جارہا ہے کہ وہ اکثریتی طبقے کی طرف سے بولے جانے والے زہریلے جملوں کو نذر انداز کردیں اور خاموش رہیں۔ اشتعال انگیزی تشدد میں تبدیل ہوکر پولرائزیشن کی کوشش کرنے والوں کے لئے ایک ساز گار ماحول فراہم کریگی‘‘۔
حالیہ دنوں میں پیش ائے تشدد کے واقعات معمولی نوعیت کے جھگڑوں کی وجہہ سے ہوئی ہے۔ چھوٹی موٹی بحث پتھر باز ی کا سبب بن رہی ہے اس میں بڑی پیمانے پر نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
احمد آباد کے ایک کارکن وقار نے کہاکہ ’’ سال2002انتخابات کے پیش نظر استعمال کیاگیا طریقہ کار ابھر کر سامنے آرہا ہے جس میں مسلمانوں کو قصور وار ٹھرایاگیاتھا۔ شکر ہے اب یہ مطالعہ کرنے کے قابل ہوگئے ہیں کہ دراصل ہو کیارہا ہے‘‘۔