صہیونی ریاست اپنے وجود کو لاحق خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے ان نام نہاد دعوؤں کی آڑ میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے انبار لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اس وقت صہیونی ریاست شام میں ایران اور حزب اللہ کی موجودگی کو اپنے وجود اور بقاء کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ اس نام نہاد خطرے کو بڑھا چڑھا کر صہیونی ریاست وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری میں سرگرم ہے بلکہ دنیا بھر سے اسلحے اور تباہ کن ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔اسرائیلی اخبارات کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے فوج کے سالانہ بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کیا۔
اسرائیلی فوج کو بھی بجٹ میں اضافے پر کوئی اعتراض نہیں۔ آرمی چیف جنرل گیڈی آئزن کوٹ اور وزیردفاع لائبرمین نے مشترکہ طور پر ’گدعون‘ نامی ایک نیا فارمولہ طے کیا تھا جس کے تحت فوج کے بجٹ میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ ماہرین یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ صہیونی لبنان کے ساتھ ایک نئی جنگ کی طرف جا رہا ہے مگر یہ جنگ ماضی کی جنگوں کی نسبت زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہوسکتی ہے۔
حزب اللہ کی میزائل سازی
اسرائیلی فوج کے لیے بجٹ میں اضافے کے مطالبے سے ایک نئی بحث بھی جاری ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے شمالی محاذ پر ایک نئی جنگ شروع ہوسکتی ہے کیونکہ اسرائیل حزب اللہ کی طرف سے خطرات کا سامنا کررہا ہے۔ اگرچہ شام میں سیاسی صورت حال غیر یقینی ہے مگر ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی سرحد کے قریب شام میں ایران اور حزب اللہ کا اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں صہیونی ریاست شام کے ساتھ ساتھ لبنانی حزب اللہ کے خلاف بھی ایک نئی سمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کے پاس لبنانی حزب اللہ اور شام میں ایران کے بڑھتے اثرو رسوخ کو روکنے کا جنگ کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ اس لئے لائبرمین دفاع کی ضرورت کے پیش نظر 3 ارب 80 کروڑ کے نئے بجٹ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے بجٹ میں اضافے کے دیگر محرکات میں ایک محرک حزب اللہ کے پاس میزایلوں کی تعداد میں اضافہ، ان کی دقت اور پیچیدگی، طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت اور زیادہ تباہ کن ہونا اسرائیلی کے لیے خوف کا باعث ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ آنے والے عرصے میں حزب اللہ کم فاصلے پر مار کرنے والے زیادہ پیچیدہ میزائلوں کے حصول کی کوشش کرے گی جس کے نتیجے میں اسرائیل میں زیادہ جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حزب اللہ کم زور میزائلوں کے انبار لگانے کے بعد زیادہ طاقت ور میزائلوں کے حصول میں سرگرم ہے۔
اسرائیل کی ایک پریشانی یہ ہے کہ حزب اللہ اپنے دفاع کے لیے GPS سسٹم کے ذریعے میزائلوں کو زیادہ پیچیدہ انداز میں اپ گریڈ کررہی ہے۔ حزب اللہ کی میزائل سازی کی صنعت میں اسے ایران کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔
اسرائیلی فوج کو درپیش مشکلات
لائبرمین کے فوج کے بجٹ میں اضافے کے پیچھے دوسری تزویراتی پیش رفت اور محرک شام کا محاذ ہے۔ اسرائیل شام کے اندر اپنی سرحد کےقریب ایران کی موجودگی کو ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اگر ایران شام کے اسرائیلی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں اپنا اثرو نفوذ قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اسرائیل کے لیے ایک ہی وقت میں کئی محاذ کھل سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں صہیونی ریاست ایک نئی جنگ کے دھانے پرہوگی اور اس وقت وہ شام، ایران اور حزب اللہ کی طرف سے نشانے پر ہوگی۔
حزب اللہ کے میزائلوں سے اسرائیل کے لیے شام میں ایران کی موجودگی زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل اسی خطرے کو بڑھا چڑھا کر جنگی تیاریوں اور اسلحے کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اگر لبنان میں حزب اللہ ، شام میں اسدی فوج اور ایرانی فوج نے مل کر حملہ کردیا تو وہ تل ابیب پر میزائلوں کی بارش کردیں گے۔
شام میں روسی فوج کی موجودگی
تیسرا اہم تزویراتی پہلو جو صہیونی ریاست کے لیے باعث تشویش ہے وہ شام میں روسی فوج کی موجودگی ہے۔ اگر شام میں موجود روسی فوج کی تعداد کم بھی ہوتی ہے تو ماسکو نے شامی فوج کو ایسے جدید ترین طیارہ شکن ہتھیار جن میں SA-22 جیسے جدید ترین نظام بھی شامل ہیں اسرائیلی فوج کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن سکتے ہیں۔
شام میں روسی فوج کی موجودگی سے اسرائیل کے کسی بھی حملے کی صورت میں اسرائیلی فوج کو زمین اور فضاء سے میزائلوں سے سامنا کیا جاسکتا ہے۔ حملے کی صورت میں روسی فوج بھی متحرک ہوسکتی ہے اور اسرائیلی فوج کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔
عملی کام
چنانچہ شام میں ایران کی موجودگی، روسی فوج اور اس کا دیا گیا اسلحہ، لبنان میں حزب اللہ اور اس کے جدید ترین ہتھیاروں کا حصول، ایران کی جانب سے حزب اللہ کی میزائل سازی میں اس کی معاونت نے صہیونی ریاست کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست نے ’سلایئیڈنگ ڈیوڈ’ جادو کی چھڑی اور ایرو 2 اور ایرو3 جیسے جدید ترین دفاعی نظاموں میں جدت لانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران اورحزب اللہ کے پاس موجود میزائلوں کی طاقت، صلاحیت اور تباہ پھیلانے کی قدر بہت زیادہ ہے۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین