ایک وقت میں وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی رفیق مانے جانے والے وی ایچ پی لیڈر پروین توگاڑیہ کو وزیراعظم نریندر مودی کے ہی ترقی کے ایجنڈے پر اب اعتراض کیوں ہے۔منظر عام پر یہ الزام بھی آیا کہ وی ایچ پی لیڈر پروین توگاڑیہ کو پولیس نے انکاونٹر کرنے کی کوشش بھی کی ‘ جس کو زیڈ پلس سکیورٹی فراہم کی گئی ہے اس کے باوجود اس قسم کاالزام پر یقین نہیں ہوتا۔
مگر توگاڑیہ کا دعوی ہے کہ وہ وقت آنے پر دستاویزات کے ذریعہ عوام کے سامنے اپنے اس الزام کاثبوت پیش کریں گے۔اگر آپ کے منتظر ہیں تو آپ ضرور صحیح وقت کا انتظار کریں۔
مگر میرے ذہین میں وشواہند و پریشد اور اس کی ساتھی تنظیموں کے وہ کارنامہ اجاگر ہوجاتے ہیں جب انہوں نے بی جے پی کے اقتدار میںآنے کے بعد انجام دئے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ دائیں بازو ہندوازم کے ایجنڈہ کوجلد از جلد نافذ کیاجائے ۔ اچانک خود ساختہ گاؤرکشک سونچنے لگے کہ وہ آزاد ہیں تاکہ وہ گائے کے نام پر لوگوں کا گلا کانٹ سکیں۔یہ لوگ ائین کے جمہوری اقدار کو بھول گئے ۔ حکومتیں اسی ائین میں دی گئی سہولت کے مطابق تشکیل عمل آتی ہیں۔وہ لوگ اس بات کو بھی بھول گئے کہ موجود ہ ہندوستان میں وہ لوگ حکومت مذہب کی عینک پہن کر نہیں چلاسکتے۔
ہندوستان تیزی کے ساتھ فروغ پاتی اقتصادی بن کر ابھر رہا ہے۔ ہمیں اپنے پر پھیلنے کے لئے دیگر ممالک کا تعاون ضروری ہے‘ او رمذہبی عینک پہننے سے ممکن نہیں ہے۔دوسری وجہہ یہ لوگ جو کل تک ایک ہی صفحے پر تھے اچانک اقتدار کا حصہ بننے کے بعد کیوں ناخوش ہیں۔یہاں سے رشتوں میں کٹھاس کی شروعات ہوئی ہے۔ ان کا احساس ہے کہ سیوم سیوک سے ان کے دوست حکومت میںآگئے او ریہ مشن پورا کرنے کے لئے پیچھے چھوٹ گئے۔سیاسی بالادستی اور مشن ہمیشہ سے ہی ہندوستانی سیاست کا حصہ رہی ہے۔شاید آپ کو یاد ہوگا اٹل بہار ی واجپائی کے دور میں ۔
(بشکریہ سیاست)