آپکے سلسلہ سے مورخین بیان کرتے ہیں حضرت امام موسي کاظم عليہ السلام کي وفات کے بعد جب آپ مدينہ ميں تھے اور روضہ رسول پر تشريف فرما رہے تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل ميں آب کي طرف رجوع کرتے تھے اور ۲۰ سال کے سن میں آپ مسجد النبوی میں بیٹھ کر فیصلہ کیا کرتے اور درس دیتے تھے (16)۔
حتی مامون مختلف ادیان و مذاہب اور فرقوں و مکاتب کے اعلٰی سطح کے علماء کو امامؑ کے سامنے لایا کرتا تھا تاکہ امامؑ کی حجت و دلیل کو لوگوں کے سامنے ناکارہ کرے اور وہ یہ سب اس لئے کرتا تھا کہ وہ امامؑ کی علمی مقام و مرتبہ سے جلتا تھا مگر جو بھی امام کے سامنے آتا وہ آپ کے فضل و دانش کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ حجت و دلیل کا پابند ہوکر رہ جاتا۔
اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا: جہان ظلم و استبداد ایک بار پھر مظلوموں کو نشانہ بنا رہا ہے، ایک بار پھر اہریمنی طاقتیں یکجا ہو کر انسانیت کے قتل کے درپے ہیں، ایک بار پھر خون کی ندیاں بہانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں، ایک بار پھر خونخوار سانپ اپنے پھن کاڑھے کھڑے ہیں، ایسے میں پھر دنیا کسی موسٰی کے عصا کی طرف دیکھ رہی ہے اور اس کارزار ظلم و عدل میں جہاں ایک طرف عالمی سامراج ہے تو دوسری طرف فلسطین و یمن جیسے ممالک کے غریب و نادار عوام ایک بار پھر صدائے ہل من سنی جا سکتی ہے، یوں تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بظاہر دوسروں کو للکارتے نظر آ رہی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو اپنی از قبل حق سے ہار کا ماتم کرتی نظر آ رہی ہے اور اس لئے کہ وہ حیران و پریشان ماتم نہ کرے تو کیا کرے کہ ایک بار پھر اسکی گیدڑ بھبھکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مظلوموں کے خونیں فتح کے پرچم اسے اپنے سروں پر لہراتے نظر آ رہے ہیں،
وہ یہ دیکھ کر دم بخود ہے کہ جن لوگوں کے خون کے گارے سے ظالموں نے اپنے محلوں کو تعمیر کیا ہو، جنکے سروں سے مینار بنا کر سلاطین وقت نے قہقہے لگائے ہوں، جن لوگوں کے لہو کی ندیاں بہا دی گئی ہوں، قریہ قریہ جنہیں دبایا گیا ہو، جنکے علاقوں کو رہایشیوں سمیت نذر آتش کر دیا گیا ہو آج ایک بار پھر وہی لوگ دنیا کے منظر نامے پر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اگر کوئی قوم کھٹک رہی ہے تو وہی جو ہر دور کے آمروں و ظالموں کو کھٹکتی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلسل اس قوم کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور خاص کر ایک بار پھر اس ملک پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، جس نے دبی ہوئی ستائی ہوئی قوم کی صورت جب اپنے حق کے مطالبہ کے لئے ایک انگڑائی لی تو تاج شہنشاہی چکنا چور ہر کر رہ گیا اور ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو کر رہ گئی، اور آج یہی قوم دنیا کے ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہے، اپنی بابصیرت قیادت کے زیر سایہ، وہ لبنان کی سرزمین ہو کہ عراق و ایران کی،
کہیں حسن نصراللہ، تو کہیں سید السیستانی اور کہیں سید علی خامنہ ای جیسے رہنماوں کی صورت ظالموں کی ناک کو رگڑنے والےجیالے اسی سر اٹھاتی قوم کا سرمایہ ہیں، جنہیں پوری تاریخ کے ظالموں نے کربلا سے لیکر اب تک دبانے کی کوشش کی لیکن جتنا اسے دبایا گیا اتنا ہی یہ آگے بڑھی جبکہ اس کے دبانے والے مغلوب ہوئے، اس قوم پر مسلسل ظلم و ستم کی یلغار کے باود وہ کون سے اسباب تھے جنہوں نے اسے ظالموں کے سامنے کبھی پسپا نہیں ہونے دیا اسکو بیان کرنے کے لئے یوں تو وقت درکار ہے، لیکن اگر ہم تاریخ کی اس مظلوم قوم کی ظلم و ستم کے تمام خونین سمندروں سے خود کو باہر نکال کر مظلوموں کی حمایت میں کھڑے ہونے کی داستان کو دیکھنا چاہیںم تو ضروری ہے کہ اس قوم کی پیشواوں کی خدمات پر ایک نظر ڈالیں۔
عشرہ کرامت کا آخری دن جس شخصیت کی ولادت سے منسوب ہے وہ ایسی ہی لافانی تاریخی شخصیت ہے جس نے اپنی قوم کو ایسے برے حالات سے نجات دی جسکا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے، جب مکاری و حیلہ گری شہنشاہی لباس میں امامت کے سامنے آتی ہے تو ولایت عہدی کے ذریعہ کوشش کی جاتی ہے کہ کربلا کے آفاقی تعلیمات سے آراستہ قوم کے جذبہ شہادت کو فروکش کر کے اسے سیاسی طور پر مہرہ بنایا جائے لیکن، ایک بار پھر اس قوم کے قائد و پیشوا منجھے ہوئے سیاست کے کھلاڑیوں کے سیاسی تیشوں سے اپنی قوم کو سربلند نکال لیتے ہیں، چنانچہ امام رضا علیہ السلام کے دور کے سیاسی حالات ہمارے سامنے ایسا آئینہ ہیں جنکی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام نے کس قدر سخت و کٹھن دور میں اپنی امت کی امامت و رہبری کی اور کس خوبصورت انداز میں اپنی امت کو یہاں تک پہنچا دیا کہ آج جب دنیا میں ہر طرف اقدار کا رونا ہے تو امام رضا علیہ السلام کو ماننے والی قوم دنیا میں اقدار انسانی کی سب سے بڑی محافظ بنی نظر آ رہی ہے اور اسکی مثال یمن و فلسطین کی موجودہ صورتحال ہے،
جہاں ایک طرف دنیا کی سفاک طاقتیں آل سعود و یہود کی مشترکہ سازشوں کی نظارہ گر نہ صرف نظارہ گر ہیں بلکہ انکی مدد کرتی نظر آ رہی ہیں، وہیں امام رضا علیہ السلام کو ماننے والی قوم مظلوموں کی حمایت میں جو بن پڑ رہا ہے کرتی دکھ رہی ہے، اس تحریر میں بہت مختصر طور پر امام رضا علیہ السلام کی جانب سے امت کی رہبری اور انداز امامت کے ساتھ ہم آپکی علمی خدمات پر ایک نظر ڈالیں گے تاکہ واضح ہو سکے کہ آج جہاں ہم کھڑے ہیں اس میں کس قدر کردار امام رضا علیہ السلام کا ہے جنہوں نے بظاہر ولایت عہدی کو ضرور قبول کیا لیکن مامون کے حربے کو اسی کے خلاف اتنی خوبصورتی کے ساتھااستعمال کیا کہ آج ساری دنیا میں شیعت کا پیغام مشہد مقدس کی سرزمین سے پہنچ رہا ہے، امام رضا علیہ السلام کی خدمات کو آپ کے دور کے علمی ماحول اور اس دور میں ہونے والے متعدد قیام اور تحریکوں کے تناظر میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ کیونکر متعدد قیام و تحریکوں کے جنم لینے کے باجود آج امام رضا علیہ السلام کی خاموش تحریک ہر تحریک پر بھاری نظر آ رہی ہے، امام رضا علیہ السلام نے شیعت کو کیا دیا ہے اسکا اندازہ لگانا ہے تو آپکے دور کے حالات کا ایک سرسری جائزہ لینا ہوگا۔
آپ کا دوران امامت :
آپکی ولادت ۱۱ ذی قعدہ ۱۴۸ ھجری ذکر کی گئی ہے (1) آپکا نام علی (2) آپکو آل محمد کے تیسرے علی (3) کے طور پر جانا جاتا ہے آپکے القاب “رضی، وفی، صدیق، صابر، نور الہدى، و سراج الله، والفاضل، و قرة عين المؤمنين و…. روایات میں ذکر ہوئے ہیں لیکن ان سب میں مشہور لقب رضا ہے جبکہ کنیت ابو الحسن بیان کی گئی ہے (4) آپکے مشہور لقب رضا کے سلسلہ سے یہ بات غلط طور پر مشہور کی گئی ہے کہ یہ لقب آپکو مامون نے دیا تھا ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ آپکو رضا اس لئے کہا جاتا ہے کہ زمیں و آسمان میں بسنے والے موافق و مخالف آپ سے راضی و خشنود تھے۔ (5)
آپکی امامت کے ۱۰ سال ہارون رشید کی خلافت میں گزرے، ہارون وہ بادشاہ ہے جو شورشوں کو دبانے کے لئے ناگزیر ہوا کہ خراسان کی طرف کوچ کرے تاکہ حکومت کو پایدار بنا سکے اسی سبب اسے رافع بن لیث کی انتقامی کاروائیوں کو پسپا کرنے کے لئے خراسان کا سفر کرنا پڑا انجام کار وہیں اس کی موت واقع ہوئی (6)۔
ہارون کی کے مرتے ہی امین و مامون کے بیچ طاقت کی جنگ چھڑ گئی اور بغداد میں امین نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا اس جنگ کا نتیجہ امین کے قتل کی صورت میں سامنے آیا اور ۱۹۷ ھجری امین کو قتل کر دیا گیا (7) عباسیوں کے اندرونی خلفشار کی بنیاد پر علویوں کو موقع ملا تو جہاں جہاں بھی انکے لئے ممکن ہوا وہ حکومت وقت کے خلاف کھڑے ہوگئے اور تقریبا ۱۳ سال کے آشفتہ دور میں جب ہر طرف خونیں جھڑپیں اور حکومت کے خلاف بغاوتیں تھیں امام رضا علیہ السلام اس پر آشوب دور میں مدینہ سے شیعوں کی رہبری فرماتے رہے۔ آپکے دور میں رونما ہونے والے حکومت مخالف قیاموں کو دیکھتے ہوئے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مامون نے آپکو ولایت عہدی کی پیشکش کیوں کی تھی؟ ظاہر ہے ایک طرف مامون کے دامن پر اپنے بھائی کے قتل کا داغ تھا تو دوسری طرف یکے بعد دیگرے علوی قیام سامنے آ رہے تھے ایسے میں ان قیاموں کو بے دم کرنے کا ایک بہترین ذریعہ یہ تھا کہ امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدی کا اعلان کر دیا جائے تاکہ حکومت کے مخالفین خاموش بیٹھ جائیں اور مامون کے بارے میں منفی سوچ قائم نہ رکھیں۔
مختصر طور پر اس دور میں یہ چند اہم قیام رونما ہوئے:
۱۔ محمد بن ابراہیم ابن طباطبا کا قیام:
محمد بن ابراہیم بن اسماعیل جو کہ نسل امام حسن علیہ السلام سے ہیں عباسیوں کے خلاف ایک بڑے قیام کے پرچم دار تھے، انہوں نے بن منصور معروف بہ ابو السرایا کے ساتھ مل کر امام حسین علیہ السلام کے روضہ اقدس پر یہ عہد کیا کہ امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لیں گے (8) اس کے بعد یہ کوفہ گئے اور پھر مامون کی خلافت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، دیکھتے ہی دیکھتے انکا قیام پھیلتا چلا گیا اور بصرہ، کوفہ، اہواز و یمن سے لیکر مکہ تک اثر انداز ہوا یہاں تک کے بہت سے علاقے ایسے بھی ابراہیم بن طباطبا کے ہاتھ میں آئے جہاں انہیں کے کارندے حکومتی امور کو دیکھتے اور اپنے منشاء کے مطابق حکومت کرتے (9) انجام کار جنگی حیلوں اور نیرنگیوں کے سامنے اس قیام نے دم توڑ دیا اور قیام کرنے والوں کا قتل عام کر دیا گیا۔
۲۔ ابراہیم بن موسٰی بن جعفر کا قیام:
ابراہیم کو ابن طباطبا نے یمن کی سر زمین پر حاکم قرار دیا تھا (10) ابراہیم نے جب ابن طباطبا کے قیام کو کچلتے دیکھا تو مکہ کا رخ کیا اور جب امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدی کا اعلان ہوا تو انکے لئے لوگوں سے بیعت بھی لی لیکن انجام کار مامون کے خیمہ میں آ گیا اور شاید اسی بنا پر ۲۰۲ میں حکومت یمن پر منصوب کیا گیا۔ (11)
محمد بن جعفر صادق ؑ کا قیام :
محمد بن جعفر نے ۲۰۰ میں حکومت وقت کے خلاف قیام کیا اور خود کو امیر المومنین کہلوانا شروع کیا، مامون کے سپاہیوں سے سخت جنگ میں انہیں اسیر کر لیا گیا جبکہ انکے لشکر کو قلع قمع کر دیا گیا اور انہیں گرفتار کر کے مامون کے سامنے پیش کیا گیا اس طرح ان کا قیام بھی کچل دیا گیا اور امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کی موت واقع ہو گئی (12)
زید بن موسی بن جعفر کا قیام:
زید بن موسی کو ۱۹۹ میں ابن طباطبا کی جانب سے خوزستان کی حکومت پر منصوب کیا گیا تھا، جب خوزستان پر انکی حکومت کی چولیں مضبوط ہو گئیں تو انہوں نے بصرہ کا رخ کیا اور بصرہ پر تسلط کے بعد عباسیوں کے گھروں کو آگ لگانے کا حکم دیا جسکی بنیاد پر انہیں زید النار بھی کہا جاتا ہے۔(13) جبکہ انجام کار انہیں بھی گرفتار کر کے مامون کے حضور پیش کیا گیا اور ان کا قیام بھی آگے نہ بڑھ سکا
ان اٹھنے والے قیاموں کی بنا پر مامون کے سامنے کوئی چارہ کار نہ تھا کہ اپنی حکومت کو مضبوط کرے مگر یہ کہ کچھ ایسا کیا جائے جسکی بنیاد پر علویوں کو ٹھنڈا کیا جا سکے، چنانچہ فضل بن سہل جیسے ساتھیوں اور مشاوروں سے مشورے کے بعد اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت سب سے بہترین طریقہ امام رضا علیہ السلام کو ولایت عہدی کے لئے راضی کرنا ہے اور انجام کار اس نے یہی کیا۔ چنانچہ مامون نے ان قیاموں سے خود کو بچانے کے لئے جب یہ دیکھا کہ شیعہ اگر کسی کو واجب الاطاعہ مانتے ہیں اور کسی کو امام مانتے ہیں تو وہ ہے امام رضا علیہ السلام کی ذات با برکت لہٰذا اس نے سوچا اگر امام کو اپنی حکومت میں منصب دے دے گا، تو قیام کی آگ کو کم از کم ٹھنڈا کر دیگا یہی وجہ ہے کہ اس نے امام علیہ السلام کے سامنے ولایت عہدی کی تجویز رکھی کہ اس کی بنا پر ان لوگوں کی انتقامی کاروائی سے بچ سکے۔
جو شیعہ ہیں اور مامون کو خلافت کا اہل نہیں سمجھتے اور اسی لئے مختلف مقامات پر حکومت کے خلاف کھڑے ہیں، اب امام علیہ السلام نے یہ ولایت عہدی کیوں قبول کی، یہ خود اپنے آپ میں ایک مستقل گفتگو ہے جو انشاءاللہ پھر کبھی۔ فی الحال جو عرض کرنا ہے وہ یہ کہ امام علیہ السلام کی امامت کا دور سخت ترین شرائط میں گزرا لیکن امام علیہ السلام نے ان سخت ترین شرائط کو دین کے استحکام میں بہترین طور پر کام میں لیا اور اپنے علم و اپنے اخلاق کے ذریعہ یہ واضح کر دیا کہ دنیاوی حکمرانوں اور الٰہی حکمرانوں میں بہت فرق ہے۔ لہٰذا ولایت عہدی کے بعد بھی آپکی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور آپ ویسے ہی رہے جیسے ولایت عہدی سے پہلے تھے امام کی زندگی کے یہ نقوش ہمیں درس دیتے ہیں کہ اگر ہم امام ؑ کے چاہنے والے ہیں تو ہماری زندگی میں منصب و مقام آنے سے پہلے اور بعد کی زندگی میں فرق نہیں ہونا چاہیئے۔ ایسا نہ ہو کہ جاب یا نوکری ملنے سے قبل تو ہم کچھ اور ہوں اور ایک عہدہ مل جانے کے بعد ہمارا انداز بدل جائے، جب تک ہمارا بزنس نہ ہو ہم انسان رہیں لیکن بزنس اسٹیبلیش ہونے کے بعد ہم محض ایک بزنس مین و تاجر بن جائیں، بلکہ اگر ہم امام کے شیعہ ہیں تو ہر پل و ہر لحظہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم چاہے کسی بھی عہدہ پر فائز کیوں نہ ہوں ہمارے اندر انسانی اقدار زندہ ہیں یا نہیں انسانی معیاروں پر ہم کتنے کھرے ہیں۔
آپکی علمی شخصیت:
امام رضا علیہ السلام کو عالم آل محمد کہا جاتا ہے چنانچہ ساتویں امام ؑ اپنے فرزندوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، “اخوکم علی بن موسی عالم آل محمد فاسألوه عن ادیانکم و احفظوا ما یقول لکم، فانی سمعت ابی جعفر بن محمد غیر مرة یقول ل: ان عالم آل محمد لفی صلبک، و لیتنی ادرکته فانہ سمی امیر المؤمنین علی” تمهارے بھائی علی بن موسی (عالم آل محمد) ہیں، اپنے دینی مسائل کے سلسلہ میں ان سے استفسار کرو وہ جو کچھ تم سے کہیں اسے یاد رکھو۔ میں نے اپنے والد جعفر ابن محمد ؑسے بارہا سنا ہے کہ فرماتے تھے: بے شک عالم آل محمد (ع) آپ کی صلب میں ہیں اے کاش میں ان کو درک کرتا، کیونکہ وه امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے همنام ہونگے (14)۔ ابن حجر عسقلانی اور سمعانی جیسے بزرگ علماء اہلسنت آپکے سلسلہ سے یوں معترف ہیں، حضرت امام رضا علیہ السلام اهل علم و فضل میں سے تھے اور نسب کے اعتبار سے شرف کے حامل تھے”۔(15)
آپکے سلسلہ سے مورخین بیان کرتے ہیں حضرت امام موسي کاظم عليہ السلام کي وفات کے بعد جب آپ مدينہ ميں تھے اور روضہ رسول پر تشريف فرما رہے تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل ميں آب کي طرف رجوع کرتے تھے اور ۲۰ سال کے سن میں آپ مسجد النبوی میں بیٹھ کر فیصلہ کیا کرتے اور درس دیتے تھے (16)۔ حتی مامون مختلف ادیان و مذاہب اور فرقوں و مکاتب کے اعلٰی سطح کے علماء کو امامؑ کے سامنے لایا کرتا تھا تاکہ امامؑ کی حجت و دلیل کو لوگوں کے سامنے ناکارہ کرے اور وہ یہ سب اس لئے کرتا تھا کہ وہ امامؑ کی علمی مقام و مرتبہ سے جلتا تھا مگر جو بھی امام کے سامنے آتا وہ آپ کے فضل و دانش کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ حجت و دلیل کا پابند ہوکر رہ جاتا۔ شیخ صدوق نے ان مناظرا ت کو اپنی کتاب میں جمع کیا ہے جو مامون نے مختلف ادیان و مذاہب کے سربراہوں کے ساتھ رکھے لیکن ہر ایک میں اسے شکست فاش ہوئی۔ (17) مامون کے سلسلہ سے ملتا ہے کہ آپ سے اس نے جب بھی سوال پوچھا آپ نے اس کا جواب قرآن سے دیا (18) یہاں تک کہ اسے آپکے علم کا معترف ہونا پڑا احمد بن عيسٰي يقطيني کا بيان ہے کہ ميں نے حضرت امام رضا عليہ السلام سے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات کو اکھٹا کيا تو یہ اٹھارہ ہزارکي تعداد ميں تھے۔
آپکی علمی و ثقافتی میراث:
آپکے علمی آثار میں چند اہم نام معروف ہیں
مسند امام رضا:
اس کتاب میں امام تقریبا ۲۴۳۰ احادیث نقل کی گئی ہیں۔ (19)
فقہ الرضا:
امام رضاؑ سے منسوب کتاب۔ (20)
مناظرات:
مختلف مذاہب و مکاتب فکر کے عمائدین سے آپکے مناظرے جنہیں شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا میں جمع کیا ہے
طب الرضا:
امام رضا علیہ السلام سے منسوب رسالہ جسے امام نے صحت و بدن سے متعلق تحریر فرمایا تھا جس میں مزاج صحت اور غذاوں کے فوائد وغیرہ ذکر ہیں۔ (21) اس رسالہ کو رساله الذہبیه کے نام سے بھی یاد جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امام (ع) نے یہ رسالہ سنہ 201 ہجری میں لکھ کر مأمون کے لئے بھجوایا اور مأمون نے رسالے کی اہمیت ظاہر کرنے کی غرض سے ہدایت کی کہ اسے سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے اور اسے “دارالحکمہ” کے خزانے میں رکھا جائے اور اسی بنا پر اسے رسالہ ذہبیہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے علماء نے اس رسالے پر شرحیں لکھی ہیں۔ (22) آپ نے اپنے اٹھارہ سالہ دور امامت میں بڑے عظیم شاگردوں کی تربیت کی خواہ وہ مدینہ کی زندگی ہو یا دو سال کی ایران میں رہائش۔ درخشاں علم کے ستاروں کو امت کے حوالے کیا آپکے شاگردوں کی تعداد ۳۱۸ بیان کی گئی ہے (23) ابو عبداللہ، محمد بن خالد برقعی قمی، حسن و حسین بن سعید اہوازی، زکریا بن آدم بن عبداللہ اشعری قمی، صفوان بن یحیٰی، محمد بن بزنطی، عبد ؎اللہ مبارک نہاوندی، ابو صلت ہروی (24) جیسے عظیم شاگرد وہ عظیم سرمایہ ہیں جنہیں آپکی عظیم علمی میراث کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، ان شاگردوں میں سے تقریبا ہر ایک کی الگ الگ معرکۃ الاراء تصنیفات و تالیفات ہیں جو آج بھی علم کی گھتیوں کو سلجھا رہی ہیں۔
غرباء پروری اور دوسروں کی مدد:
امام رضا علیہ السلام کو امام غریب کہا جاتا ہے گرچہ ہمارا یہ امام وطن سے دور ہونے کی بنا پر غریب ہے لیکن حقیقت میں ہر غریب انسان کے لئے امام کا وجود ایک ڈھارس ہے، آج بھی آپکا روضہ اقدس نہ جانے کتنے غریبوں اور یتیموں کی سرپرستی کر رہا ہے جبکہ آپکی زندگی میں بے شمار ایسے نمونے ہیں جہاں آپ غریبوں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے کہ کسی کو احساس نہ ہوتا کہ غربت کی وجہ سے اسے حقیر سمجھا جا رہا ہے، چنانچہ تاریخ میں ہے کہ بلخ کا رہنے والا ایک شخص حضرت کے ساتھ ايک سفرميں تھا، ايک مقام پر دسترخوان بچھا توآپ نے تمام غلاموں کو جن ميں حبشي بھي شامل تھے بلا کر بٹھا ليا، وہ بلخی شخص کہتا ہے ميں نے عرض کي، مولا انہيں عليحدہ بٹھا دیں تو کيا حرج ہے؟ آپ نے فرمايا کہ سب کا رب ايک ہے اور ماں باپ آدم و حوا بھي ايک ہيں اور جزا و سزا اعمال پرموقوف ہے، تو پھر یہ اونچ نیچ کیسی؟ آپکی سیرت میں ملتا ہے کہ غلاموں کو آپکا تاکیدی حکم تھا کہ امام کی آمد پر وہ کبھی احتراما کھڑے نہ ہوں، خاص کر اس وقت جب دسترخوان سجا ہو چنانچہ ملتا ہے کہ آپکے لئے جب مخصوص خوان آتا تو اس میں سے ہر ایک طبق میں سے آپ کچھ نکال کر علیحدہ علیحدہ غرباء و نادار افراد کے لئے الگ کر لیتے اور جب کبھی امیر و غریب کی بات ہوتی تو فرماتے۔ اللہ کے وہ زیادہ نزدیک ہے جو صاحب تقوی ہے ۔
اسی لئے غریب و نادار طبقہ آپ سے بہت مانوس رہتا، یعقوب بن اسحاق نوبختی کہتے ہیں، ایک دن امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں ایک آدمی نے آ کر کہا: “اعطنی علی قدر مروتک” اپنی حیثیت کے مطابق مجھے کچھ عطا کریں، امام علیہ السلام نے فرمایا: “لا یسعنی ذلک” اس مقدار میں نہیں دے سکتا! اس آدمی نے کہا “علی قدر مروتی” پھر میری حیثیت کے مطابق مجھے عطا کریں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا، ہاں اس مقدار میں دوں گا اس کے بعد اپنے غلام سے فرمایا، اسے دو سو دینار دے دو ۔ اسی طرح یسع بن حمزه کا بیان ہے، ایک شخص نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت حاضر ہو کر کہا: “اے فرزند رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام هو! میں آپ اور آپ کے آباء و اجداد کے دوستوں و محبّوں میں سے ہوں اور حج کے سفر سے واپس آرہا ہوں، میرے پاس رقم اور زاد راه بہت کم ہے میں اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہوں، اگر مناسب ہو تو میری امداد کریں تاکہ میں اپنے شہر اور وطن واپس جا سکوں، خدائے متعال نے مجھے نعمتوں اور امکانات سے نوازا ہے اگر میں وطن پلٹ جاؤں تو جو کچھ آپ عطا کریں گے میں انہیں آپ کی جانب سے راه خدا میں صدقہ دوں گا۔ اس وقت امام علیہ السلام گھر میں داخل ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد آکر اپنے ہاتھ کو پوشیده طریقہ سے دروازه کے باهر نکالا اور اس شخص سے فرمایا، یہ دو سو دینار ہیں انہیں لے لو، ان سے استفاده کرو اب اسے واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے میری طرف سے صدقہ دے دینا۔
اس واقعہ کے بعد جب آپ گھر سے باہر آئے تو آپ سے سوال کیا گیا کہ اس کی اس طرح امداد کیوں فرمائی؟ (اپنے چہره کو ان سے مخفی کیا)۔ امام (ع) نے فرمایا” مَخَافَةَ أَنْ أَرى ذُلَّ السُّؤَالِ فِي وَجْهِهِ لِقَضَائِي حَاجَتَهُ، أَمَا سَمِعْتَ حَدِيثَ رَسُولِ اللّهِ صلى الله عليه وآله: الْمُسْتَتِرُ بِالْحَسَنَةِ يَعْدِلُ سَبْعِينَ حَجَّةً، وَ الْمُذِيعُ بِالسَّيِّئَةِ مَخْذُولٌ، وَ الْمُسْتَتِرُ بِهَا مَغْفُورٌ لَهُ؟، اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ هو کہ میں اس کے چہره پر مانگنے کی ذلت و خواری کو اس کی حاجت کی برآری کے وقت دیکھوں، کیا تم نے رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث نہیں سنی ہے، جو نیک کام کو پوشیده طور پر انجام دے وه ستر حج کے برابر ہے اور جو گناه و معصیت کو ظاہر کرے گا وه ذلیل و خوار ہوگا اور جو شخص اپنے گناه و معصیت کو دوسروں سے چھپائے گا وه معاف کردیا جائے گا۔ یقینا امام رضا علیہ السلام کی حیات طیبہ میں اور بھی ایسے گوشے ہوں گے، جن پر گفتگو سماج اور معاشرہ کی موجودہ تشنگی کو دور کرنے کا سبب ہوگی ، فی الحال جن باتوں کو ہم نے بیان کیا ان کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے سخت ترین شرائط میں شیعت کی آبرو کی حفاظت کر کے اس طرح ہم تک پہنچایا ہے کہ آج بھی مشہد الرضا آبروئے تشیع بنا ہر درد مند و بیکس کا استقبال کرتا نظر آ رہا ہے اور جس طرح کل کے مظلومین و ستائے ہوئے لوگ امام رضا علیہ السلام کو اپنے مسیحا کے طور پر دیکھ رہے تھے آج کے دور میں ستائی ہوئی انسانیت امام علیہ السلام کے مکتب کے سپاہی ہونے کے ناطے ہمیں دیکھ رہی ہے ایسے میں اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ رضوی سوجھ بوجھ کو اختیار کرتے ہوئے دشمن کو اسکے ناپاک عزائم میں ناکام بنا دیں، یا سستی و کاہلی و عدم بصیرت کا شکار ہو کر دشمن کے چنگل میں پھنس جائیں۔
پروردگار ہمیں اپنے آئمہ معصومین علیھم السلام کی مجاہدانہ زندگی کو سمجھنے اور سمجھ کر ان کی بتائے تعلیمات پر عمل کر نے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمین)
حواشی:
۔1 ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ ص ۳۱۰ ، عاملی، 1430ه.ق، علام الوري ص 182، جلاء اليعون ص 280، روضة الصفا جلد 3، ص 13، انوارالنعمانيہ، ص 127، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا (ع)، دراسۃ و تحلیل ص 168.
2۔ آپکا یہ نام حضور سرور کائنات کی تعیین کے مطابق وہی رکھا گیا جو لوح محفوظ پر ثبت تھا ، اعلام الوري ص 225، مطالب السئول ص 282
3۔ ایضا
4۔ طبری،دلائل الامامہ،359۔ تذکرة خواص الامة ص 198
5۔ اعلام الوري ص 182
6۔ طبعی، جلد ۶ ص ۵۲۷
7۔ ایضا جلد ۷ ص ۸۴
8۔ ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبیین ، ص ۴۲۷
9،10،11۔ ایضا
12۔ قاضی نعمان، شرح الاخبار جلد ۱۴، ص ۳۳۷
13۔ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص ۴۳۷
14۔ بحار الانوار، مجلسی، ج49، ص100؛ کشف الغمه، اربلی، مکتبة بنی هاشم، ج3، ص107۔
15۔ و کان الرضا من اهل العلم و الفضل مع شرف النسب، تهذیب التهذیب، ابن حجر عسقلانی دارالکتب العلمیه، ج7، ص328؛ الانساب، دارالکتب العلمیه، ج3، ص74۔
16۔ امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، ج 1، ص 101.
17۔ عیون اخبار الرضا، ج1، ص 152۔
18۔ “وَ كَانَ الْمَأْمُونُ يَمْتَحِنہ- بِالسُّؤَالِ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ فَيُجِيبُ فِيهِ- وَ كَانَ كَلَامُهُ كُلُّهُ وَ جَوَابُهُ وَ تَمَثُّلُهُ انْتِزَاعَاتٍ مِنَ الْقُرْآنِ- وَ كَانَ يَخْتِمُهُ فِي كُلِّ ثَلَاثٍ وَ يَقُولُ لَوْ أَرَدْتُ أَنْ أَخْتِمَهُ- فِي أَقْرَبَ مِنْ ثَلَاثٍ لَخَتَمْتُ وَ لَكِنِّي مَا مَرَرْتُ بِآيَةٍ- قَطُّ إِلَّا فَكَّرْتُ فِيهَا وَ فِي أَيِّ شَيْءٍ أُنْزِلَتْ- وَ فِي أَيِّ وَقْتٍ فَلِذَلِكَ صِرْتُ أَخْتِمُ فِي ثَلَاثَةٍ ایام؛ ۔ بحارالانوار، مجلسی، ج49، ص90۔
19۔ رضا استادی ، مقالہ مسند الامام الرضا مجموعہ آثار نخستین کنگرہ جہانی حضرت رضا ع ص ۵۱۸
20۔ مقالہ فقہ الرضا مجموعہ آثار نخستین کنگرہ جہانی حضرت رضا ص ۳۶۳
21۔ تاریخ امامت ص ۲۲۱ منتظر القائم
22۔ فضل الله، 1377، تحلیلی از زندگانی امام رضا (ع)، ترجمہ محمد صادق عارف ص،۱۹۱
23۔ شیخ طوسی، رجال ص ۳۶۶
24۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، جلد ۴، ص ۳۶۸
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی