موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے اور محققین کی جانب سے کافی عرصے سے خبردار کیا جارہا ہے کہ سردیوں میں نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی وبا مزید بدتر ہوسکتی ہے، خصوصاً ایسے خطوں میں جہاں صورتحال پہلے ہی قابو میں نہیں۔
اس حوالے سے ماہرین کی رائے اب کیا ہے، اس حوالے سے جریدے نیچر نے ایک مضمون شائع کیا۔
امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ڈیوڈ ریلمین کے مطابق ‘وائرس کو نئی جوانی ملنے والی ہے، ہمیں مشکل مہینوں کا سامنا ہوسکتا ہے’۔
نظام تنفس کے امراض کا باعث بننے والے متعدد وائرسز بشمول انفلوائنزا اور پہلے سے سرگرم کورونا وائرسز کی شرح سرما میں بڑھ جاتی ہے اور گرمیوں میں گھٹ جاتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ کووڈ 19 کی وبا بتدریج سیزنل شکل اختیار کرلے گی، مگر ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ موسم سرما میں سیزنل اثر زیادہ بڑے پیمانے پر کیسز کا باعث بن سکتا ہے۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول کے امراض کے پھیلاؤ کے ماڈلز تیار کرنے والے ماہر مایورسیو سانتیلانا کے مطابق سرد موسم مین لوگ اپنا زیادہ وقت چاردیواری کے اندر گزارتے ہیں، جہاں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص ہوتا ہے، جس سے وائرس کی منقلی کا خطرہ بڑھتا ہے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کی ماہر راکیل بیکر نے بتایا کہ اگر معمولی موسمی اثر بھی ہوا تو اس سے بھی بہت بڑی تعداد میں لوگوں میں بیماری کا خطرہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا ‘اس موسم میں وبا کے اثرات پر احتیاطی تدابیر جیسے سماجی دوری اور فیس ماسک پہننا اثرانداز ہوسکیں گے’۔
وائرل بیماریوں کے موسمیاتی اثرات متعدد عناصر کا مجموعہ ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کا رویہ اور وائرس کی خصوصیات، جیسے گرم اور نمی والے موسم کو پسند نہ کرنا۔
لیبارٹری تجربات میں دریافت کیا گیا ہے کہ نوول کورونا وائرس کے لیے سرد اور خشک موسم موزوں ہے خصوصاً سورج کی براہ راست روشنی کے حوالے سے۔
مثال کے طور پر مصنوعی الٹرا وائلٹ ریڈی ایشن نئے کورونا وائرس کے زمین اور ہوا میں موجود ذرات کو غیرفعال کرسکتی ہے۔
اسی طرح 40 سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور زیادہ مرطوب موسم میں متعدد وائرس بہت تیزی سے سطح پر غیرفعال ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں سردیوں میں لوگ اپنے گھروں کو ہیٹر یا دیگر ذرائع سے گرم کرتے ہیں، جبکہ ہوا خشک ہونے کے ساتھ زیادہ بہتر طریقے سے خارج نہیں ہوتی۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر ڈیلن مورس کے مطابق ‘سردیوں میں چاردیواری کے اندر کا ماحول وائرس کے استحکام کے لیے کافی موزون ہوتا ہے’۔
کسی مخصوص وائرس کے مختلف موسموں کے دوران پھیلاؤ کی شرح میں کمی بیشی کے لیے عموماً محققین کی جانب سے کسی ایک مقام پر کئی برسوں تک ہر سال کئی بار مختلف موسموں میں تحقیق کرتے ہیں۔
مگر اس بار ایسا نہیں کیونکہ کورونا وائرس کے پپھیلاؤ کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا اور اس کے موسمیاتی اثرات پر ابھی تحقیقی کام جاری ہے۔