برطانوی راج کے ایک افسر سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے 125 سال پہلے کاغذی نقشے پر ایک تصوراتی لکیر کھینچی تھی۔
شاید انہیں بھی اندازہ نہ ہوگا کہ سنگلاخ پہاڑوں اور دشوار گزر گاہوں میں انھی کے نام سے منسوب یہ لکیر، ڈیورنڈ لائن،اگلی صدی میں کن مشکلات کو جنم دے گی۔
ہیلی کاپٹر کی نیچی پرواز کے دوران اس سرحدی لکیر کے ارد گرد علاقوں کا فضائی جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ یہاں کہیں بنجر پہاڑی چوٹیاں ہیں اور کہیں چلغوزوں کے جنگلات ان پہاڑوں پر پھیلے ہیں، مگر ان سب میں بین الاقوامی سرحد کہاں ہے، کچھ ماہ پہلے تک اس کا اندازہ نہ تو فضا سے ممکن تھا اور نہ ہی زمین سے۔ زمین پر آبادی کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں، کہیں ایسے مکانات ہیں جن کی چھتیں ہیں اور نہ مکین۔
جہاں کہیں آبادیاں دکھائی دیتی ہیں، وہاں کئی عمارتوں کی چھتیں سبز اور سفید رنگ میں رنگی ہیں۔ یہ رنگ یہاں آنے والوں کے لیے پیغام ہیں کہ ان علاقوں میں ریاستِ پاکستان کی رِٹ قائم ہو گئی ہے۔
ایسے میں دور سے ہی بل کھاتی خاردار تاروں میں لپٹی، 12 فٹ اونچی، دو رویہ باڑ نظر آتی ہے۔ اب یہی باڑ ہی وہ لکیر ہے جو 1893 میں سر مانٹیمر ڈیورنڈ نے کھینچی تھی۔
افغانستان نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرتی اس بین الاقوامی سرحد، ڈیورنڈ لائن،کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
پاکستانی فوج تقریباً ساڑھے 2200 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن پر بظاہر ناقابل عبور باڑ لگا رہی ہے اور اب تک 43 کلومیٹر طویل حساس علاقے میں باڑ لگ گئی ہے۔
یہ باڑ دکھانے پاکستانی فوج میڈیا کے نمائندوں کو سرحد پر لے گئی، جہاں دوسری جانب خوست اور پکتیکا کے دیہات پھیلے ہیں۔
فوجی حکام کے مطابق سرحد پر باڑ لگنے سے شدت پسندوں کی نقل و حرکت رک جائے گی جس سے دونوں ملکوں میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی۔
عسکری حکام کے مطابق باڑ نصب کرنے کے علاوہ یہاں ہر ایک سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر 750 قلعے تعمیر کیے جائیں گے، جن میں سے 92 مکمل بھی ہو چکے ہیں۔
علاقے کے کمانڈنگ افسر نے بتایا کہ باڑ مکمل ہونے کے بعد سرحد پر ’ہماری مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکے گا۔‘
ڈیورنڈ لائن پر23 ایسے دیہات اور قبائل موجود ہیں جو سرحد کی دونوں جانب تقسیم ہیں۔ افغانستان کا موقف رہا ہے کہ سرحد پر بٹے یہ خاندان باڑ لگنے سے متاثر ہوں گے تاہم پاکستانی فوج کا دعویٰ ہے کہ باڑ کی تنصیب میں، شدت پسندی سے تنگ، ان قبائل کی عوام کی حمایت بھی شامل ہے۔
انگور اڈہ میں قائم ایک قلعے کے گرد بارودی سرنگوں کے حوالے سے حکام نے بتایا کہ ’سرحدی علاقے میں کسی بھی مقام پر یہ نصب نہیں کی جا رہیں، تاہم انتہائی حساس علاقے میں موجود اس قلعے کی حفاظت کے لیے ماضی میں یہ بارودی سرنگیں نصب کی گئی تھیں۔‘
سرحد پر پاکستانی فوج کے مقامی کمانڈر سمجھتے ہیں کہ یہ باڑ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر کرے گی۔
’افغانستان سرحد پر کبھی بھی سکیورٹی اہلکاروں کی مناسب تعداد نہیں رکھ سکا اوریوں شدت پسندوں کی نقل و حرکت پر قابو پانے میں مشکل رہی ہے۔‘
مقامی حکام کے مطابق پاکستانی سات فوجی پوسٹوں کے مقابلے میں سرحد کی نگرانی کے لیے افغانستان کی صرف ایک پوسٹ ہے اور ’باڑ کی تعمیر سے افغان افواج پر بھی بوجھ کم ہو جائے گا۔‘
تاہم یہ ایک پیچیدہ منصوبہ ہے اور یہ بات فوجی افسران بھی تسلیم کرتے ہیں۔
ماضی میں یہاں عسکریت پسندی نے باڑ کی تعمیر روکے رکھی، مگر اب یہاں کا دشوار گزار علاقہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔
مقامی کمانڈر کے مطابق ’ایک کلومیٹر باڑ کے لیے سامان سے لدے 30 ٹرک اس مقام تک پہنچائے جاتے ہیں مگر انفراسٹرکچر کا نہ ہونا اس ترسیل کو نہایت مشکل بنا دیتا ہے۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ پہلے ہم سڑک بناتے ہیں، پھر وہاں سامان پہنچاتے ہیں۔‘
طویل سرحد پر باڑ لگنے کا کام فاٹا کی دیگر ایجنسیوں میں بھی جاری ہے۔ مگر یہ کب مکمل ہوگا، اس بارے میں فی الحال کوئی بھی معلومات دینے سے قاصر ہے۔