لکھنؤ: شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے)، شہریت آبادی رجسٹر (این پی آر) اور قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) کی مخالفت میں حسین آباد واقع گھنٹہ گھر پر گزشتہ ۱۷؍جنوری سے شروع ہوئی خواتین کی تحریک منگل کوبھی جاری رہی۔
منگل کو خواتین نے احتجاج کا نیا طریقہ اختیار کرتے ہوئے گھنٹہ گھر میدان میں ڈیٹنشن سینٹر کاماڈل بنایا اور سی اے اے، این پی آر اور این آر سی مخالف نعرے بازی کی۔ خواتین نے علامتی طور سے بنائے گئے ڈیٹنشن سینٹر میں جاکر اپنا احتجاج درج کرایا۔ خواتین نےڈیٹنشن سینٹر کے ماڈل کے ذریعہ بتانے کی کوشش کی کہ این آر سی نافذ ہونے کے بعد جو لوگ اپنی شہریت ثابت نہیں کرپائیں گے انہیں اسی طرح ڈیٹنشن سینٹر میں ڈال دیا جائے گا۔
گھنٹہ گھر پر ڈیٹنشن سینٹر کے ماڈل کو دیکھ کر خواتین جذباتی ہوگئیں اور ڈیٹنشن سینٹر کے ماڈل میں بنی سلاخوں کے پیچھے جاکر سی اے اے، این پی آر اور این آر سی مخالف نعرے بازی کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ ڈیٹنشن سینٹر کا ماڈل موضوع بحث بنا رہا اور بڑی تعداد میں لوگوںنے گھنٹہ گھر پہنچ کر ڈیٹنشن سینٹر کے ماڈل کو دیکھا۔
ڈیٹنشن سینٹر کے پیچھے کھڑی ہوکر سمیہ رانا نے کہاکہ آج ملک میں جس طرح کے حالات ہیں ان کو دھیان میں رکھتے ہوئے ڈیٹنشن سینٹر کا ماڈل بنایا گیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اب ہم کسی چیز سے خوف زدہ نہیں ہوں گے، نہ ہی جیل سے اور نہ ہی پولیس کی لاٹھی و گولی سے، ہم امن کے ساتھ ملک میں امن قائم کرنے کےلئے لڑرہے ہیں، چاہے ہمیں جیل جانا پڑے یا سولی پر چڑھنا پڑے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
سمیہ رانا نے کہاکہ ملک کے بڑے بڑےانقلابی بابائے قوم مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو ، بھگت سنگھ ہوں یا اشفاق اللہ یا رام پرساد بسمل سب نے جیل میں جاکر ملک کے مفاد کےلئے سزا کاٹی۔ انہوں نے کہاکہ گھنٹہ گھر کے میدان میں بنائےگئے ڈیٹنشن ماڈل سے ہم یہی پیغام دینا چاہتے ہیںکہ ملک کے مفاد میں سوچنے والوںکو اسی طرح جیلوں میںجانا پڑا۔