رمضان المبارک کے مہینے کے پیش نظر مسجدیں کولنے کو لیکر پاکستانی حکومت اور علمائے اکرام کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس میں نماز او رتراویح میں شامل ہونے کیلئے 21 نکاتی ایس او پی (SOP ) اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیزر مسجدوں کو سونپا گیا ہے۔ جس کی پیروی کرنا لازمی بنایا گیا ہے
اسی ایس او پی میں مسجدوں میں داخلے سے پہلے بخار یک کرنا اور اندر سوشل ڈسٹینسنگ کے قانون پر سختی سے عمل کرنا اہم ہے۔ نابالغوں اور 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو بھی نماز اور تراویح میں شرکت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ڈاکٹرس کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن میں حکومت کے اس فیصلے کی تنقید کی ہے۔ علماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ ضد چھوڑ دیں اور لوگوں سے گھروں میں ہی رنے کی اپیل کریں۔ ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ کوروناوائرس بڑھتے معاملوں کی وجہ سے ملک کی اقتصادی حالت پہلے سے ہی ٹھیک نہیں ہے۔
کئی ڈاکٹرس اور نرس اپنی جان گنوا چکے ہیں اور سیکڑوں متاثر ہیں۔ ایسے میں ان کی محنت کو ضائع نہیں کیا جانا چاہئے۔ ادھر عمران خاننے اپنے فیصلے کا بچاؤ کرتے ہوئے جمعرات کو کہا، ‘میں اپنے ملک کو جانتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ رمضان میں لوگ نماز اور تراویح کیلئے گھروں سے ضرور نکلیں گے’۔
عمران نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے قواعد بنائے گئے ہیں اور اسے توڑنے والوں کو سزا دی گئی ہے۔ اسی طرح اگر مساجد میں ایس او پی کی پیروی نہیں کی گئی تو علمائے کرام کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور ان کے لئے سزا مقرر کی جائے گی۔ عمران نے کہا کہ جس بھی مسجد میں کسی قسم کی غلطی ہوئی [سے فوراً پھ سے بند کردیا جائے گا۔ اس پر مزید کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ انہوں نے آگے کہا کہ میری تو صلاح یہی ہے کہ ملک کے عوام ڈاکٹروں کی قربانی کو یاد رکھیں اور رمضان المبارک کے دوران گھروں میں دعا اور نماز کا اہتمام کریں۔ عمران نے کہا کہ ہم لوگوں کو سڑکوں پر نہیں پیٹنا چاہتے کیونکہ انہوں نے لاک ڈاؤن کو توڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ صورتحال کی سنجیدگی کو سمجھیں اور اپنے گھروں میں ہی رہیں۔