ہم نہیں تھے تو کیا کمی تھی یہاں ہم نہ ہوں گے تو کیا کمی ہوگی اس معروف شعر کے خالق اور اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر اتفاق سے نغمہ نگار جاوید اختر لکھنو میں موجود تھے انہوں نے منور صاحب کی میت کو کاندھا دیا۔منور رانا کا اتوار کی دیر رات گئے لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔
اردو دنیا کے مشہور و معروف اور منفرد لب و لہجے کے شاعر منور رانا کا 71 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ لکھنؤ کے پی جی آئی ہسپتال میں انہوں آخری سانس لی۔ وہ طویل عرصے سے بیمار تھے اور بتایا جاتا ہے کہ گردے اور دل سے متعلق عارضہ لاحق تھا۔ اطلاعات کے مطابق منور رانا طویل عرصے سے وینٹی لیٹرپرتھے۔
منور رانا 26 نومبر 1952 کو اتر پردیش کے شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے تھے البتہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا میں گزارا۔ منور رانا خاص وعام میں بے حد مقبول تھے۔ ان کے انتقال سے پوری اردو دنیا میں غم کی لہر ہے۔ منور رانا کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک فرزند اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔
منوررانا نے ایک نظم ’ماں‘ کے عنوان سے بھی لکھی تھی جس کو بے حد پسند کیا گیا تھا اور صرف اردو دنیا میں ہی نہیں بلکہ ہندی اور دیگر زبانوں سے متعلق حلقوں میں بھی اس نظم کو داد ملی۔
منور رانا کو کئی ایوارڈ و اعزازات سے نوازا گیا جن میں سنہ 2014 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ خاص طور سے قابل ذکر ہے البتہ انہوں نے مسلمانوں کے ایشوز پر ساہتیہ اکادمی کا یہ قومی ایوارڈ بھی حکومت کو واپس کر دیا تھا۔ انہیں یوپی اردو اکادمی کا چیئر مین بھی بنایا گیا لیکن کچھ ہی دن بعد اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔