لاکھوں دستاویزات کے اجرا کے بعد عالمی رہنما دفاعی پوزیشن اپنائے ہوئے ہیں، ان دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ سربراہان مملکت کس طرح کروڑوں ڈالر مالیت کے اثاثوں کو چھپانے کے لیے آف شور ٹیکس ہیونز کا استعمال کرتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 35 موجودہ اور سابق رہنماؤں کے نام مالیاتی خدمات کی کمپنیوں سے لیک ہونے والی تقریباً ایک کروڑ 19 لاکھ ملین دستاویزات میں شامل ہیں جن میں فرینچ رویرا، مونٹی کارلو اور کیلیفورنیا میں لگژری مکانات کی رپورٹس شامل ہیں۔
نام نہاد ‘پنڈورا پیپرز’ بین الاقوامی کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے حاصل کیے اور واشنگٹن پوسٹ، بی بی سی اور دی گارڈین سمیت میڈیا پارٹنرز کی جانب سے اسٹوریز کی صورت میں جاری کیے گئے۔
الزامات کرپشن سے لے کر منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری تک ہیں۔بیشتر ممالک میں اثاثوں کو غیر ملکی رکھنا یا شیل کمپنیوں کا استعمال غیر قانونی نہیں ہے لیکن یہ انکشافات ان رہنماؤں کے لیے ہزیمت کا سبب ہیں جنہوں نے کفایت شعاری کے اقدامات کو آگے بڑھایا ہے یا کرپشن کے خلاف مہم چلائی ہے۔
اگرچہ روسی رہنما ولادی میر پیوٹن کا نام ان دستاویز میں شامل نہیں ہے تاہم وہ ساتھیوں کے ذریعے موناکو میں خفیہ اثاثوں سے جڑے ہوئے ہیں ، بشمول سمندر کنارے ایک گھر کے جس میں رپورٹس کے مطابق ایک روسی خاتون نے ان کی اولاد پیدا کی تھی۔
کریملن کے ترجمان متری پیسکوف نے کہا کہ یہ بڑے پیمانے پر بے بنیاد دعووں کا صرف ایک مجموعہ ہے، ہم نے پیوٹن کے قریبی حلقوں میں پوشیدہ دولت کے حوالے سے کچھ نہیں دیکھا۔
دوسری جانب اردن نے بھی ان ‘غلط’ رپورٹوں کو مسترد کردیا کہ شاہ عبداللہ دوم نے آف شور کمپنیوں اور ٹیکس ہیونز کا ایک نیٹ ورک بنایا اور کیلیفورنیا سے لندن تک 10 کروڑ ڈالر کی پراپرٹی سلطنت جمع کی۔شاہ عبداللہ دوم نے براہ راست اس مسئلے پر بات نہیں کی لیکن اسے ‘اردن کے خلاف مہم’ کہتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
شاہی محل سے جاری ایک بیان میں کے مطابق شاہ عبداللہ نے قبائلی عمائدین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘کچھ عرصے سے اردن کو شرمندہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اب بھی وہ لوگ ہیں جو اسے سبوتاژ کرنا اور شکوک و شبہات کا بیج بونا چاہتے ہیں، ہمارے پا چھپانے کو کچھ نہیں ‘۔
ملک کی شاہی عدالت نے کہا کہ جائیدادوں کے لیے بادشاہ کی ذاتی دولت سے فنڈ فراہم کیے گئے اور انہیں سرکاری اور نجی دوروں کے لیے استعمال کیا گیا۔
آئیوری کوسٹ کے وزیر اعظم پیٹرک اچی نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے بعد کسی غلط کام کی تردید کی، ان پر الزام تھا کہ وہ ایک ٹرسٹ کے ذریعے بہاماس میں قائم کمپنی آل اسٹار کنسلٹنسی سروسز لمیٹڈ کے مالک بنے جس نے اس کی ملکیت کو دھندلا دیا۔
پیٹرک اچی کے دفتر نے ‘بظاہر اس معلومات کے غلط استعمال’ کی مذمت کی جو 1990 کی دہائی کے آخر کی ہے جب وہ آئیوری کوسٹ کے وزیر توانائی کے مشیر تھے۔
ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ْپیٹرک اچی اپنے نام کو غیر قانونی سرگرمیوں سے جوڑنے کی اجازت نہیں دیں گے’۔ادھر کینیا کے صدر اوہورو کینیاٹا نے کہا کہ یہ کاغذات ‘مالی شفافیت کو بڑھائیں گے’ لیکن ان الزامات کو ٹال دیا کہ ان کے خاندان نے لاکھوں ڈالر مالیت کی 11 آف شور کمپنیاں بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘غیر قانونی فنڈز کی نقل و حرکت، جرائم اور بدعنوانی کی آمدنی رازداری اور تاریکیوں کے ماحول میں پروان چڑھتی ہے’۔آئی سی آئی جے کو آف شور ہیونز میں تقریباً ایک ہزار کمپنیوں کے 336اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں اور عہدیداروں سے رابطے ملے ہیں۔
ان میں ایک درجن سے زائد موجودہ سربراہانِ مملکت اور حکومت، ملکی رہنما، کابینہ کے وزرا، سفیر اور دیگر شامل ہیں۔دو تہائی سے زیادہ کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم کی گئیں۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیف کے اہل خانہ اور ساتھی، جن پر طویل عرصے سے وسطی ایشیائی ملک میں بدعنوانی کا الزام ہے، مبینہ طور پر برطانیہ میں کروڑوں مالیت کی جائیداد کے سودوں میں خفیہ طور پر ملوث رہے ہیں۔