سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں سوگ کی لہر ہے۔ منموہن سنگھ کے انتقال پر روس، فرانس، مالدیپ سمیت کئی ممالک کے سربراہان نے اپنے گہرے غم کا اظہار کیا ہے۔
ساتھ ہی دنیا بھر کی میڈیا تنظیموں نے بھی منموہن سنگھ کے انتقال پر سوگ ظاہر کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان آج جیسا رشتہ ہے وہ منموہن سنگھ کے ویژن کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ بائیڈن نے منموہن سنگھ کو سچا محب وطن اور ملک کے لیے وقف رہنما بتایا۔
منموہن سنگھ کے انتقال پر روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی غم کا اظہار کیا۔ انہوں نے منموہن سنگھ کو ایک عظیم رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور دوسرے عہدوں پر رہتے ہوئے ہندوستان کی اقتصادی ترقی کو بڑھاوا دینے کے لیے عالمی منچ پر انہوں نے اپنی آواز بلند کی ہے۔
وہیں ملیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے ڈاکٹر منموہن سنگھ سے اپنے نزدیکی رشتے کا ذکر کرتے ہوئے ان کے انتقال پر اپنے گہرے صدمے کا اظہار کیا۔ ابراہیم 1999 سے 2004 تک جیل میں بند تھے۔
اس وقت منموہن سنگھ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے رہنما تھے۔ انور ابراہیم نے کہا کہ جب میں جیل میں بند تھا تو منموہن سنگھ نے بڑی رحم دلی دکھائی تھی۔ میرے بچوں، خاص طور پر میرے بیٹے کے لیے انہوں نے اسکالرشپ کی پیش کش کی تھی۔ حالانکہ میں نے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس سے ملیشیائی حکومت ناراض ہو سکتی تھی۔
مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید نے کہا “منموہن سنگھ ایک رحم دل والد کی طرح تھے۔ وہ مالدیپ کے اچھے دوست تھے۔ وہیں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا کہ ہندوستان نے سب سے شاندار بیٹوں میں سے ایک کو کھو دیا ہے۔
ادھر برطانوی اخبار فائنانشیل ٹائمز نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بارے میں لکھا ہے “ان کا پہلا دور قرض معافی، منریگا اور آر ٹی آئی کے لیے جانا جاتا ہے۔ 2008 میں منموہن سنگھ نے جوہری معاہدہ کے لیے حکومت کو داؤ پر لگا دیا تھا۔”
امریکی اخبار بلومبرگ نے لکھا “ان کی کہانی لوگوں میں خود اعتمادی بھر دیتی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ تعلیم، سخت محنت سے ہماری زندگی ہمارے ماں-باپ کی زندگی سے بہتر ہو سکتی ہے۔
” ایک اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا “وہ سکھ طبقہ سے آتے تھے۔ پہلی بار کوئی ہندوستان کا وزیر اعظم بنا تھا۔ وہ اس وقت پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے، جب ہندوستان کا سیکولرزم خطرے میں تھا۔ منموہن سنگھ نے یہ ثابت کیا تھا کہ کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”