کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ خلائی تحقیقات کرنے والے انسان کیسی اور کیا غذاء کھاتے ہیں، یا پھر آپ کو کبھی ایسا خیال آیا کہ خلاء میں جانے والے ہم جیسے ہی انسان وہاں کس طرح زندگی گزارتے اور اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں؟۔
یقینا آپ نے ایسا بہت بار سوچا ہوگا اور اس حوالے سے جاننے کی کوشش بھی کی ہوگی، لیکن آپ کی تشنگی ختم نہیں ہوئی ہوگی، کیوں کہ خلاء میں رہنے والے انسانوں کی زندگی اور رہن سہن سے متعلق ہر کسی کے پاس عام معلومات نہیں ہوتی۔
ہم آج اس مضمون میں آپ کو ایسی چند ابتدائی باتیں بتائیں گے، جنہیں پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ انسان کے خلاء میں جانے کا ابتدائی دور کتنا مشکل تھا،اب کتنا آسان بن چکا ہے اور مستقبل میں یہ مزید کتنا آسان ہوگا۔
اگر کہا جائے کہ خلاء کو تخسیر کرنا یا وہاں جاکر تحقیقات کرنا دراصل روس اور امریکا کے درمیان جاری سرد جنگ کا حصہ تھی تو غلط نہ ہوگا، سرد جنگ کے بھلے ہی دنیا پر کئی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہوں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرد جنگ کی وجہ سے ہی آج دنیا سائنسی ترقی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہی ہے۔
سائنسی و تحقیقی جنگ میں روس نے 1961 میں امریکا کو مات دیتے ہوئے یوری گیگرین کو خلاء میں بھیج کر برتری حاصل کی، جبکہ امریکا کا اپنا مرکری پراجیکٹ کئی طرح کے پیچیدہ تکنیکی مسائل کے باعث اس وقت التواء کا شکار تھا۔
کئی برس کی سر توڑ کوششوں کے بعد 1962 میں خلاباز جان گلین کو مدار میں بھیجا گیا جو مرکری سیون پراجیکٹ کا ایک حصہ تھا، اس مشن میں اسپیس شٹل نے کامیابی کے ساتھ زمین کے گرد 3 چکر مکمل کیے اور باحفاظت واپس آئی۔
خلاباز جان گلین کے مرکری مشن کو انگریزی فلم ‘ہڈن فگرز’ میں بہت خوبصورتی کے ساتھ فلمایا گیا ہے اور دکھایا گیا ہے کہ اس پراجیکٹ کے تکنیکی مسائل کو حل کرنے میں 3 سیاہ فام خواتین نے کیسے بھرپور کردار ادا کیا، اس کے علاوہ اس پراجیکٹ میں خلاباز جان گلین کی صحت کے حوالے سے بھی متعدد خدشات درپیش تھے، کیونکہ اس دور میں خلاء کے بارے میں سائنسدانوں کی معلومات بہت کم تھی اور وہ یہ اندازہ لگانے سے قاصر تھے کے زمین کے گرد چکر کاٹنے کے دوران انسان کے جسم و اعصاب پر کیسے اور کتنے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، علاوہ ازیں یہ بھی کسی کو پتہ نہ تھا کہ جان گلین کو مشن کے دوران کس قسم کی خوراک فراہم کی جائے؟
بھرپور تحقیقات کے بعد جان گلین کو ٹوتھ پیسٹ جیسی ٹیوب میں پلازمہ کی طرح غذاء فراہم کی گئی، اس ٹیوب کو دبا کر غذاء منہ میں ڈالی جاتی تھی، گزرتے وقت کے ساتھ جہاں خلائی سفر میں تیزی سے پیش رفت ہوئی، وہیں خلابازوں کو فراہم کی جانے والی غذاء کی کوالٹی اور طریقوں میں بھی مسلسل تحقیق کے ساتھ بہتری آتی گئی، اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ خلاء میں کچھ دن قیام کے لیے ٹھوس غذاء نہیں دی جا سکتی تھی کیونکہ’ نو گریویٹی’ کے باعث خلاء میں ہر شے معلق حالت میں ہوتی ہے۔
1998 میں بین الااقوامی خلائی مرکز کے قیام کے بعد خلابازوں کی صحت کے حوالے سے تحقیقات میں نمایاں پیش رفت ہوئیں، ابتداء میں چند خلابازوں کے کچھ ہفتے وہاں قیام سے سائنسدانوں کو کافی معلومات حاصل ہوئی کہ خلاء میں انسانی جسم، اعصاب اور مختلف فنکشنز کس حد تک متاثر ہوتے ہیں، جن میں نظام انہضام کی خرابیاں اور بے خوابی سرفہرست تھے، ان کے حل کے لیے سائنسدانوں نے خوراک کی کوالٹی بہتر کرنے اور لمبے عرصے تک محفوظ و قابل استعمال رکھنے کے لیے نئے طریقے استعمال کیے، جن میں شیر خوار بچوں کی غذاء جیسی خوراک کو ٹیوبز میں بھرنے کا طریقہ قابل ذکر ہے، مگر جلد ہی یہ محسوس کیا گیا کہ خلاء میں انتہائی مضبوط اعصاب کے ساتھ کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ غذاء ہر گز مفید نہیں، لہذا زیادہ غذائی اجزاء والی طاقتور خوراک پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔
اس مقصد کے لیے ایک بلکل نئی تکنیک دریافت کی گئی، جسے ‘فریز ڈرائنگ’ کہا جاتا ہے، اس میں پہلے پہل غذاء کو مناسب درجۂ حرارت پر پکا کر فوراً فریز کر لیا جاتا ہے، اس کے بعد اسے مخصوص ویکیوم چیمبر میں ڈی ہائیڈ ریٹ (پانی خشک کرنے کا عمل) کیا جاتا ہے،اس ڈی ہائیڈریٹڈ غذاء کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے دوبارہ ریفریجریٹر میں رکھنا نہیں پڑتا اور یہ لمبے عرصے تک استعمال کی جاسکتی ہے۔
بین الااقوامی خلائی مرکز میں طویل عرصے تک قیام کے دوران اس خوراک کے پیکٹس میں حسب ضرورت ٹھنڈا یا گرم پانی ڈال کر اس کا پتلا پیسٹ سا بنا لیا جاتا تھا، پھر ان پیکٹس سے ہی کھانا کھایا رہا، اسی طرح مختلف قسم کے طاقتور پھلوں کو ابال کر ڈی ہائیڈریٹ کر لیا جاتا، جنھیں خلاء میں اسی طرح ٹھوس حالت میں استعمال کیا جاتا رہا اور یہ طریقہ کامیاب بھی رہا،کیوں کہ آج کل دنیا بھر میں یہ تکنیک مختلف ورائٹیز کے کھانوں خصوصاً ناشتے کے سیریلز میں پھلوں کا ذائقہ اور رنگ شامل کرنے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔
اگرچہ جدید ٹیکنالوجی کے بدولت خلابازوں کو ہر طرح کی غذائیت اور ذوق کے مطابق پیکٹس میں خوراک فراہم کی جارہی ہے، مگر نئی ڈیزائن کردہ اسپیس شٹل میں اب باقاعدہ جدید کچن بھی موجود ہوتے ہیں، جہاں خلاباز ‘آرٹی فیشل گریویٹی’ یا مصنوعی کشش ثقل کی موجودگی میں من پسند کھانے بھی تیار کر سکتے ہیں، جبکہ مخصوص پیکٹس میں کیچپ، مایونیز، یہاں تک کے نمک اور کالی مرچ بھی دستیاب ہوتی ہیں، جنہیں پانی ملاکر استعمال کیا جاتا ہے، کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ان کے ذرات ہر طرف بکھر جائیں گے۔
واضح رہے کہ یہ مصنوعی کشش ثقل بین الااقوامی خلائی مرکز کے اپنے ایکسز کے گرد گردش سے پیدا کی جاتی ہے، جو ہوبہو زمین کی کشش ثقل جیسی تو نہیں، مگر اسی کے باعث خلاء میں طویل عرصے قیام اور تحقیقات ممکن ہوئی ہیں۔
پیکٹس میں غذاء بنا کر اسے نگلنا ایک دشوار گزار اور قدرے ناگوار عمل تھا، کیونکہ ہر شخص کھانے پینے کے معاملے میں بچپن سے ہی مخصوص عادات کا شکار ہوتا ہے، جسے اچانک تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا، یا اگر کوشش کی جائے تو خلابازوں پر اضافی اعصابی دباؤ پڑنے کا اندیشہ تھا، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوسکتی تھی، لہذا اس مسئلے کے حل کے لیے خلائی مشنز میں خاص ڈیزائن کردہ ٹرے فراہم کی گئیں، جو خلابازوں کے گود سے ہکس کے ذر یعے جڑ جاتی ہیں، اس طرح بین الاقوامی خلائی مرکز میں اب گھر کی ڈائننگ ٹیبل کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔
کھانے کی اشیاء کی طرح خلابازوں کو ابتداء ہی سے پینے کے معاملے میں بھی متعدد مسائل کا سامنا تھا، مختلف طرح کے ڈرنکس جن کو وہ عادتاً زمین پر دن رات استعمال کیا کرتے تھے وہ خلاء میں پینا ممکن نہیں تھا، کیونکہ خلا باز بے وزنی کی کیفیت کے باعث پہلے ہی بے خوابی اور اعصابی دباؤ کا شکار تھے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ڈی ہائیڈریشن کی تکنیک استعمال کی گئی اور مختلف طاقتور جوسز اور ڈرنکس کو پاؤڈر کی صورت میں مخصوص پاؤچز میں محفوظ کر لیا گیا،جس میں پینے کے لیے سوراخ ( نوزل) یا اسٹرا لگا ہوا ہوتا ہے، خلاباز اس پاؤچ میں پانی شامل کرکے اس کا مائع ڈرنک بناکر نوزل سے پی لیتے ہیں، مگر ان ڈرنکس میں الکوحل کی مقدار بہت کم یا نہ ہونے کے برابر رکھی جاتی ہے، کیونکہ خلاء میں جو سب سے بڑا مسئلہ خلابازوں کو اب تک درپیش رہا ہے وہ دوران نیند یا مرکز سے باہر مرمت کے کاموں کے دوران گم ہوجانے کا ہے، اس کے حل کے لیے اب خلائی لباس میں متعدد نئے فیچرز متعارف کروائے گئے ہیں، جن میں لوکیشن سنگل بھی شامل ہیں، جو خلاء میں کسی مخصوص جگہ پر انکی درست نشاندہی کر سکیں گے۔
اسی طرح اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ناسا دیگر اداروں کی مدد سے خلاء کو مزید انسان دوست بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، جس سے امکان ہے کہ آنے والے چند سالوں میں خلاء بھی انسان دوست بن جائے گی، اگرچہ اب بھی خلاء میں انسان ماضی کے مقابلے کم مشکلات کا شکار ہے، تاہم نئے منصوبوں سے اس میں مزید بہتری آنے کی امید ہے۔
حال ہی میں ناسا کی جانب سے مریخ مشن کے لیے باقاعدہ بھرتیوں کے اعلان کے بعد ان تحقیقات میں مزید تیزی آگئی ہے اور کئی معروف بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں’اسٹوڈنٹس اسپیس فلائٹ’ کے تجرباتی پروگرام آغاز کیا گیا ہے،جس میں طلباء و طالبات مائیکرو گریویٹی میں مخصوص ‘پرو بایوٹک ‘ پر تجربات کر رہے ہیں، جن سے مستقبل کے خلائی مشنز میں انسانی صحت کے حوالے سے مزید پیش رفت ممکن ہوگی اور خلا بازوں کے علاوہ اسپیس ایکس کی تجرباتی خلائی سفر کے فلائٹس پر جانے والے عام افراد کو بھی صحت کے حوالے سے کم خطرات کا سامنا ہوگا۔