دوحہ ؛انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں لاکھوں ایغور مسلمانوں کو ’’پیشہ ورانہ تربیت‘‘ کے نام پر اذیت ناک حراستی مراکز میں بند رکھے جانے کے ساتھ تشدد اور انتہائی نامناسب سلوک کا سامنا ہے، جن میں انہیں خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا جانا بھی شامل ہے۔
عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ نے ایغور مسلمانوں کو خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیے جانے سے متعلق رپورٹ نشر کی ہے۔ اس رپورٹ میں سیارہ گل ساوتبے نامی ایغور خاتون کا کہنا ہے کہ کیمپ میں بند رکھے جانے کے دوران ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، وہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح آج بھی ان کے حواس پر غالب ہے۔ انہیں 2 سال قبل چینی حکام نے کیمپ سے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اب سوئیڈن میں پناہ گزیں سیارہ گل ساوتبے ڈاکٹر ہیں۔
انہوں نے کیمپ میں رکھے جانے پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے دیگر قیدیوں کو مارے جانے، جنسی تشدد، گالم گلوچ اور نامرد کیے جانے کے واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے اپنے اوپر کیے گئے تشدد اور مشکلات کا احوال بھی بیان کیا۔ ان کا ایک انٹرویو الجزیرہ ٹیلی وژن نے حال ہی میں نشر کیا اور اس میں انہوں نے سنکیانگ میں مسلمانوں کے حراستی کیمپوں کے اندرونی حالات بیان کیے ہیں۔
اس انٹرویو میں سیارہ گل نے بتایا کہ ایغور اور دوسری مسلمان اقلیتوں کو اذیتی کیمپوں میں انتہائی نامناسب سلوک کا سامنا ہے۔ انہیں اس جبر کے دوران خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سیارہ گل کا کہنا ہے کہ خاص طور پر ہر جمعہ کے دن کھانے میں خنزیر کا گوشت دیا جاتا تھا اور تمام مسلمانوں کو زبردستی یہ کھانے پر مجبور بھی کیا جاتا تھا اور انکار کرنے والے کو شدید تشدد کا سامنا ہوتا تھا۔ ساوتبے کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے حراستی کیمپ کے اہل کار بیجنگ حکومت کے ایما پر مسلمانوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ حرام گوشت کی خوراک زبردستی کھانے کے احساسات کو بیان کرنا کسی بھی مسلمان کے لیے انتہائی پشیمانی وشرمندگی کا باعث اور ناقابل بیان ہے۔ خیال رہے کہ 2017ء سے سنکیانگ میں مسلمانوں کے گھروں اور بستیوں کی سخت نگرانی کی جاری ہے۔ ساتھ ہی مسلمان کسانوں کو زرعی ترقی کے نام پر لادینیت کی ترغیب دی جا رہی ہے۔