سید ذیشان احمد
پچھلے دنوں جب میں دلی (یا دہلی) میں تھا تو میں نے ایک عجیب سی بات محسوس کی۔ وہ یہ کہ میں جب جب گلی قاسم جان (جو کہ بَلّی ماراں سے نکلتی ہے) میں ایک حویلی کے سامنے سے گزرتا تھا تو منہ پر یہ شعر خود بخود، باترنم آجایا کرتا:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے،
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اس شعر کی طرز، جس میں، میں پڑھا کرتا، وہی تھی جو ونود سہگل کی آواز میں شہرہءِ آفاق ڈراما سیریز مرزا غالب میں تھی۔ شاید یہ غالب سے عقیدت، محبت یا یہ کہہ لیجیے کہ ایک قسم کی انسیت تھی جس نے اس عادت کو جنم دیا۔ میرا یہ غالب کی حویلی کے پاس سے گزرنا کوئی نئی بات نہ تھی، اور اس بار تو روز کا معمول بن گیا تھا، لیکن آخر ایسا تھا ہی کیوں؟ سمجھ لیجیے دلی سے نہ صرف میرا بلکہ میرے خاندان کا بھی تعلق ہے، لیکن یہ قصہ پھر کبھی۔
میرا جب بھی دلی جانا ہوتا ہے تو رہائش گلی قاسم جان میں موجود ایک مکان میں ہوتی ہے جو ہمارے پر دادا کے زمانے سے وہاں ہے۔ حالانکہ اب اس مکان کی بناوٹ وغیرہ بالکل بدل چکی ہے لیکن مقام وہی ہے۔ گھر سے دو قدم کی دوری پر وہ حویلی موجود ہے جہاں مرزا اسد اللہ خان غالب عرف مرزا نوشہ نے اپنی زندگی کے آخری سال گزارے۔
ویسے تو مرزا نے اپنی زندگی میں، جب سے وہ آگرہ سے دلی آئے، کئی مکان بدلے لیکن شاید ہی کوئی ایسا مکان ہوگا جو گلی قاسم جان یا اس کے اطراف سے باہر ہو۔
اس حویلی کی کہانی کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کا ذکر کرنا لازمی ہے۔ حویلی کافی بڑی ہوا کرتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ اس کے کئی حصے بٹ گئے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ حویلی میں ایک کوئلے کی ٹال قائم ہوگئی۔
لیکن ایک لمبی جدوجہد کے بعد آخر کار 90ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت اس حویلی کو ایک ثقافتی ورثے کا درجہ دیا گیا، جو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد حویلی کی بحالی کا ایک سلسلہ چلا جس نے حویلی کو ایک یادگار میں تبدیل کردیا۔
میں اس حویلی کو بہت کم عمری سے دیکھ رہا ہوں، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور آج اس سے ایک ایسا رشتہ جڑ گیا ہے جس کو بیان کرنا آسان نہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، غالباً آپ کے ساتھ بھی ہوا ہوگا، ایک کوئی ایسی جگہ جہاں سے آپ سالوں سے گزر رہے ہوں لیکن آپ کو اس کی حیثیت کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ لیکن پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچانک آپ کا اس سے رشتہ جڑ جاتا ہے۔
آج مرزا کی حویلی کا جو حصہ میموریل بنا دیا گیا ہے وہ ایک چھوٹا حصہ ہے۔ اندر مغلیہ دور کا سا منظر دکھے گا۔ محرابیں، سرخ اینٹیں، راہداریاں اور بڑے دروازے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس طرح سے اس جگہ کو بحال کیا گیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مرزا نے اس حویلی میں 9 سال گزارے۔ مرزا کے شاگرد اور اُن کے ساتھ طویل وقت گزارنے والے الطاف حسین حالی پانی پتی نے مرزا کی زندگی اور ان کی اردو فارسی تخلیقات پر ایک شاندار کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ’یادگارِ غالب‘۔ اس کتاب میں حالی لکھتے ہیں کہ مرزا نے کئی مکان بدلے اور کچھ عرصہ کالے خان صاحب، جو کہ غالب کے اچھے دوست تھے، ان کے یہاں بھی رہائش پذیر رہے۔
حالی بتاتے ہیں کہ ان کا آخری مکان ایک مسجد کے ساتھ تھا۔ اس بات پر مرزا نے ایک شعر بھی کہا ہے:
مسجد کے زیرِ سایہ ایک گھر بنا لیا ہے
یہ بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے
مرزا کے آخری چند سال بڑی تکلیف میں گزرے اور بیشتر اوقات اپنی موت کی آرزو کیا کرتے تھے۔ حالی نے ہی لکھا ہے کہ آخری برسوں میں غالب پلنگ پر ہی رہتے تھے۔ پوری زندگی مرزا نے ہر قسم کی تکلیف کو سہا۔ سر پر ماں باپ کا سایہ نہیں، پھر جو جو شفقت کا مرکز بنے وہ بھی چل بسے، اولادوں کی اموات، بھائی کی موت، پھر قانونی مسائل، اوپر سے تنگی، لوگوں کا تعصب اور ان سب کے بعد 1857ء کے وہ کچھ مہینے جس نے سب کچھ بدل دیا۔
آج حویلی میں پہنچ کر ان گنت خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے اور کیا رونقیں ہوا کرتی ہوں گی اور پھر کیسی کیسی آفتیں آئیں۔ اس وقت کو یاد رکھنے کی ایک کوشش حویلی کی دیواروں سے جھلکتی ہے۔ حویلی میں اس دور کی تصاویر، مرزا کی زندگی کے حوالے سے کچھ دستاویزات اور اس نوعیت کی اور بھی چیزیں ہیں۔
ایک بڑی تصویر، جس میں مرزا حقہ پی رہے ہیں، بھی نصب ہے، جس کے سامنے کھڑے ہو کر ان کے مداح تصویریں کھنچواتے ہیں یا سیلفیاں لیتے ہیں۔ 2 مجمسے بھی ہیں۔ ایک شیشے کے پیچھے ہے، برآمدے میں، جس میں مرزا تشریف فرما ہیں اور دوسرا حویلی میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر کمرے میں ہے۔
گار گلزار صاحب کا عطا کردہ ہے، جن کی غالب شناسائی کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر آپ نے گلزار صاحب کی تحریر کردہ سیریز مرزا غالب دیکھی ہو تو اس میں جو مرزا کی حویلی دکھائی گئی ہے، وہ اسی حویلی کو سامنے رکھ کر بنائی گئی تھی۔
مرزا آخری سالوں میں بیمار ضرور رہے تھے، قوتِ سماع بھی قریباً جاچکی تھی لیکن خط و کتابت کا سلسلہ ختم نہیں کیا۔ اس کا بیان نہ صرف حالی نے کیا ہے بلکہ محمد حسین آزاد نے اپنی تصنیف آبِ حیات میں بھی کیا ہے کہ مرزا خطوط کے جوابات خود تحریر نہیں کرپاتے تو کسی سے لکھوا لیتے، لیکن سلسلہ کبھی ٹوٹا نہیں۔
مرزا کا انتقال 1869ء میں اسی حویلی میں ہوا لیکن وہ اس سے پہلے ہی امر ہوچکے تھے۔ آج بھی شاعری اور شاعروں یا تاریخ سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ حویلی صرف ایک یادگار ہی نہیں بلکہ ماضی میں قدم رکھنے اور ایک بیتے ہوئے کل کو آج سے ملانے کا ایک مقام ہے۔
اور جہاں تک شامی کباب، اولڈ ٹام اور آم پسند کرنے والے، عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ، مرزا غالب کی بات ہے تو:
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا