امریکی انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر ایورل ہانس کا کہنا ہے کہ افغانستان سے زیادہ بین الاقوامی دہشت گردوں سے امریکا کو سب سے بڑا خطرہ یمن، صومالیہ، شام اور عراق سے ہے۔
غیر ملکی میڈیا بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ جہاں امریکی انٹیلی جنس حکام افغانستان کے اندر دہشت گرد گروہ دوبارہ نمودار ہونے پر غور کر رہے ہیں وہیں امریکا کے اندر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو پناہ دینے کی بات ہو تو یہ ملک اب سب سے بڑی تشویش نہیں رکھتا۔
ایورل ہانس نے کہا کہ ‘ہم اب افغانستان کو فہرست میں اوپر نہیں رکھتے، ہماری فہرست میں اب اوپر یمن، صومالیہ، شام اور عراق ہیں، یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم سب سے بڑا خطرہ دیکھتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس کے باوجود امریکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے ایک بڑی توجہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی ممکنہ دوبارہ ابھرنا ہے جس کی نگرانی کی جارہی ہے’۔
ان کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے جب گزشتہ ماہ طالبان کے قبضے کے بعد امریکا کے جلد بازی میں انخلا پر جو بائیڈن انتظامیہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے۔
ایورل ہانس کے بیان کے چند گھنٹوں بعد سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے ایوان کی خارجی امور کی کمیٹی کو انخلا کے بارے میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان انٹیلیجنس برادری کے لیے انتہائی پیچیدہ اور انتہائی نجی حیثیت میں رہا ہے، ہماری انٹیلی جنس کا ذخیرہ کم ہو گیا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کے لیے ہمیں تیاری کرنی تھی اور اس کی ہم واضح طور پر کافی عرصے سے تیاری کر رہے ہیں’۔
انہوں نے انٹیلی جنس اور نیشنل سکیورٹی الائنس اور غیر منافع بخش گروپ اے ایف سی ای اے کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں مقامی دہشت گردوں کے خطرے کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے، مقامی دہشت گردی پر خفیہ ایجنسیاں ایف بی آئی اور ہوم لینڈ سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کی مدد کر رہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اولین ترجیحات میں چین کا مقابلہ کرنا، نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری، صحت عامہ اور نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری قائم کرنا وغیرہ ہیں۔
خفیہ ایجنسیوں کے غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے کردار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے دفتر کو کانگریس نے غیر ملکی مرکز قائم کرنے کی ہدایت دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘آپ ہر جگہ غلط معلومات کے پیچھے نہیں جا سکتے، آپ کو یہ جاننا ہوگا کہ سب سے اہم کیا ہے اور ہم اس سے کیسے نمٹتے ہیں’۔