امر کا اظہار امریکی دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار نے کیا ہے۔امریکی دفتر خارجہ میں خلیجی امورکے نگران اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ ٹیموتھی لینڈرکنگ نے ابوظہبی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں سرگرم عرب اتحاد کی امداد روکنے کی سخت مخالف ہے۔
یمنی بحران کے حل کے لئے سویڈن میں ہونے والے مذاکرات میں یمن حکومتی وفد میں شامل رکن رنا غانم نے واضح کیا ہے کہ حوثی ملیشیا ابھی تک بحران کے حل کی خاطر کسی مشترکہ للائحہ عمل کی تیاری میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔یمن کی سیاست سے متعلق سویڈن مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں جس کے بعد دونوں فریقیں کے درمیان اختلافات کی خلیج کے خدوخال نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ حوثی وفد اپنی سابقہ شرائط پر قائم ہے۔ فریقین کے درمیان الحدیدہ بندرگاہ اور صنعاء ہوائی اڈے کی حوالگی سے متعلق اختلافات برقرار ہیں۔
نیز بحران کے سیاسی حل، عبوری مدت اور قیدیوں جیسے معاملات پر بھی اختلافات تاحال برقرار ہیں۔ادھر سویڈن مذاکرات مین شامل حوثی ملیشیا کے رکن عبدالملک الحجری نے بتایا ہے کہ وہ صنعاء آنے والے جہازوں کے یمن سے باہر معائنے کے لئے تیار ہیں۔دوسری جانب یمنی وزیر خارجہ خالد الیمانی نے الحدیدہ بندرگاہ کو غیر جانبدار نگرانی میں دینے سے متعلق حوثیوں کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اہم بندرگاہ پر یمنی حکومت کا کنڑول بحال کیا جانا ضروری ہے، تاہم انہوں نے عندیہ ظاہر کیا کہ یمنی حکومت الحدیدہ بندرگاہ کے انتظامی کںڑول کیلئے اقوام متحدہ کی کوارڈی نیشن پر تیار ہو سکتی ہے۔یمن میں جاری جنگ اور اس کے اقتصادی نتائج کے سبب 15.9 ملین افراد یا اس ملک کی ترپن فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ انکشاف اقوام متحدہ میں ہفتے کو پیش کردہ ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
سروے میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فوری طور پر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو متاثرہ آبادیوں کو قحط کی صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے اور قحط کے شکار افراد کی تعداد بیس ملین سے تجاوز کر جائے گی۔ یہ سروے بین الاقوامی ماہرین نے یمنی اہلکاروں کے تعاون سے مکمل کیا ہے۔دوسری جانب ایران نواز حوثی ملیشیا کے مرکزی مذاکرات کار نے مطالبہ کیا ہے کہ بندرگاہی شہر الحدیدہ کو ’غیر جانبدار علاقہ‘ قرار دے دیا جائے۔