اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ یمن میں سات سال سے جاری جنگ میں خطرناک حد تک تیزی دیکھنے میں آئی جس میں جنوری میں شہریوں کی ہلاکتیں کم از کم تین سالوں میں سب سے زیادہ ہیں اور آئندہ ماہ فوری طور پر نئے فنڈز نہ ملنے کی صورت میں 80 لاکھ یمنی تمام انسانی امداد سے محروم ہو جائیں گے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہنس گرنڈبرگ اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مارٹن گریفتھس کا عرب دنیا کے غریب ترین ملک میں پہلے سے ہی سنگین صورتحال کی بگڑتی ہوئی تصویر کی منظر کشی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ جنگ زدہ علاقوں میں کئی گنا اضافہ ہوا اور جنوری کے آخر میں اقوام متحدہ کے تقریباً دو تہائی بڑے امدادی پروگراموں میں کمی واقع ہوئی ہے یا وہ پروگرام مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔
یمن 2014 میں اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہوا جب ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے حکومت کو جنوب کی طرف بھاگنے پر مجبور کرتے ہوئے دارالحکومت صنعا اور ملک کے شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا، جس کے بعد مارچ 2015 میں امریکا اور متحدہ عرب امارات کا حمایت یافتہ سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد جنگ میں داخل ہوا تاکہ صدر عبید ربو منصور ہادی کے اقتدار کو بحال کرنے کی کوشش کی جاسکے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہنس گرنڈ برگ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پر حوثیوں باغیوں کے حالیہ حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جب تک یمنی فریقین، خطے اور عالمی برادری کی جانب سے تنازع کے خاتمے کے لیے فوری طور پر سنجیدہ کوششیں نہیں کی جاتیں تو اس تنازع کے کنٹرول سے باہر ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ حوثی باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں صعدہ میں ایک حراستی مرکز پر اتحادی افواج کے فضائی حملے کی صورت میں ہونے والی ہلاکتیں تین سالوں میں شہریوں کی ہلاکت کا بدترین واقعہ تھا۔
انہوں نے یمن میں صنعا کے رہائشی علاقوں اور حدیدہ کے بندرگاہی علاقے سمیت یمن میں فضائی حملوں میں خطرناک حد تک اضافے کی طرف بھی اشارہ کیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مارٹن گریفتھس کا کہنا تھا کہ جنوری میں فضائی حملوں، گولہ باری، چھوٹے ہتھیاروں سے کی گئی فائرنگ اور دیگر تشدد سے 650 سے زیادہ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے جو کم از کم تین سالوں میں اب تک ہلاکتوں اور زخمیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔