واشنگٹن، 20 اگست (یواین آئی) اقوامِ متحدہ کے ایک ترجمان نے پیر کو بتایا کہ یمن کے حوثیوں نے صنعا میں اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا دفتر واپس کر دیا ہے جو انہوں نے اس ماہ کے شروع میں قبضے میں لے لیا تھا۔
ایرانی حمایت یافتہ گروپ نے تین اگست کو اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے احاطے میں ایک وفد بھیجا اور عملے کو دفتر کی چابیاں دینے پر مجبور کیا۔
غیرملکی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا کہ دفتر آج یمن میں ہمارے رہائشی رابطہ کار کے حوالے کر دیا گیا۔
دوجارک نے کہا، رابطہ کار کے مطابق “دفتر بظاہر اپنی اصل حالت میں ہے لیکن فی الحال سامان کی ایک تفصیلی فہرست بنائی جا رہی ہے۔”
اقوامِ متحدہ کے حقوق کے سربراہ وولکر ترک جنہوں نے گذشتہ ہفتے دفتر کی ضبطی کا اعلان کیا تھا، اسے “اقوامِ متحدہ کی اختیارات انجام دینے کی صلاحیت پر سنگین حملہ” قرار دیا۔
اقوامِ متحدہ نے پیر کے روز دوبارہ اپنے عملے کے 13 ارکان اور این جی او اور سفارت خانے کے درجنوں ملازمین کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جنہیں حوثیوں نے دو ماہ سے زائد عرصے سے قید کر رکھا ہے۔
دوجارک نے کہا، سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کو نظربند افراد کی “خیریت کے بارے میں گہری تشویش ہے” اور مزید کہا کہ انہوں نے ان کی “فوری اور غیر مشروط رہائی” کا مطالبہ کیا۔
حوثیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے انسانی ہمدردی کی تنظیموں کی آڑ میں کام کرنے والا “امریکی-اسرائیلی جاسوسی نیٹ ورک” پکڑا جبکہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
حوثی ایک طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی میں مصروف ہیں جس سے دنیا کا ایک بدترین انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں نصف سے زیادہ آبادی کا انحصار بیرونی امداد پر ہے۔
اپریل 2022 میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے چھے ماہ کی جنگ بندی کے مذاکرات کے بعد سے لڑائی میں نمایاں کمی آئی ہے حالانکہ یہ جنگ بندی باضابطہ طور پر ختم ہو چکی ہے۔