پولینڈ میں ایک نرسری میں کورونا وائرس کے نتیجے میں 2 درجن سے زیادہ افراد متاثر ہوگئے، جس کے بعد یہ سوال سامنے آیا کہ بچوں میں یہ بیماری کتنی آسانی سے پھیل سکتی ہے۔
امریکا سینٹرز فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے طبی جریدے ایمرجنگ انفیکشیز ڈیزیز میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس نرسری میں 29 افراد اس وائرس کا شکار ہوئے۔
ان کیسز میں 8 بچے بھی شامل تھے جو اس نرسری میں گئے تھے اور ایک خاندان کے 12 ایسے افراد بھی اس سے متاثر ہوئے جو اس مقام سے رابطے میں تھے، جن میں 3 بہن بھائی، 8 والدین اور ایک بزرگ تھے۔
اس نرسری میں وائرس سے متاثر ہونے والے بچوں کی عمریں ایک سے 2 سال کے درمیان تھی، جبکہ 2 بچوں عمریں 5 اور 8 سال تھی۔
پولینڈز میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق کا حصہ بننے والے محققین نے بتایا کہ نرسری میں کورونا وائرس کے اتنے کیسز میں پھیلاؤ کی شرح بہت زیادہ تھی اور اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کہ کیا اس وبا کے حوالے سے بچوں کے کردار کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سے 2 سال کی عمر کے بچے بھی ممکنہ طور پر موثر طریقے سے کورونا وائرس کو پھیلا سکتے ہیں۔
پولینڈ کی یہ نرسری لاک ڈاؤن کے بعد 18 مئی کو کھولی گئی تھی مگر 31 مئی کو اس وقت بند کردیا گیا جب وہاں کام کرنے والے ایک فرد نے اپنے خاندان میں کورونا کیس کو رپورٹ کیا۔
اس ورکر میں 4 جون کو کورونا کی تشخیص ہوئی اور اس کے بعد عملے کے مزید 104 افراد، ان کے بچوں اور خاندان کے افراد کا بھی بعد میں ٹیسٹ ہوا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ ان 29 افراد میں کورونا وائرس نرسری سے باہر سے منتقل ہوا کیونکہ اس وقت پولینڈ میں کیسز کی شرح بہت کم تھی۔
ستمبر میں آئرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر بچوں میں بدہضمی کووڈ 19 کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق ہیضہ اور الٹیوں کی شکایت بچوں میں وائرس کی اولین علامت ہوسکتی ہے۔
کوئنز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نظام ہاضمہ کے مسائل ممکنہ طور پر بوں میں کووڈ 19 کی اہم ترین علامت ہوتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ کھانسی یا سونگھنے یا چکھنے کی حس میں تبدیلیوں سے زیادہ ہیضہ اور الٹیاں کووڈ 19 کی پیشگوئی میں زیادہ اہمیت رکھنے والی علامات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی بچوں میں کووڈ 19 کی تشخیص چاہتے ہیں تو آپ کو ہیضے اور الٹیوں کو دیکھنا چاہیے، صرف نظام تنفس کی علامات تک محدود رہنا ٹھیک نہیں۔
محققین کے مطابق اس وقت علامات کی آفیشل فہرست سے صرف 76 فیصد کیسز کی شناخت ہوپاتی ہے، مگر معدے کے مسائل کو فہرست کا حصہ بنانے سے یہ شرح 97 فیصد تک بڑھائی جاسکتی ہے۔