ممبئی، 13 جولائی (ےیو این آئی) ہندی فلموں کے مشہور موسیقار مدن موہن کے نغمہ ’آپ كی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے ، دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے‘ سے موسیقی کے شہنشاہ نوشاداس قدر متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے مدن موہن سے اس دھن کے بدلے اپنی موسیقی کا پورا خزانہ لٹا دینے کی خواہش ظاہر کر دی تھی۔
مدن موہن کوہلی کی پیدائش 25 جون 1924 کو ہوئی۔ ان کے والد رائے بہادر چنی لال فلمی کاروبار سے منسلک تھے اور بمبئی ٹاکیز اور فلمستان جیسے بڑے فلم اسٹوڈیو میں پارٹنر تھے۔
گھر میں فلمی ماحول ہونے کی وجہ سے مدن موہن بھی فلموں میں کام کرکے نام کمانا چاہتے تھے لیکن اپنے کے والد کے کہنے پر انہوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کرلیا اور دہرہ دون میں ملازمت شروع کر دی۔ کچھ دنوں بعد ان کا تبادلہ دہلی ہو گیا، لیکن کچھ وقت کے بعد ان کا دل فوج کی نوکری سے بھر گیا اور وہ فوج چھوڑ کر لکھنؤ آ گئے اور ریڈیو کے لیے کام کرنے لگے۔
ریڈیو میں ان کی ملاقات موسیقی کی دنیا سے وابستہ استاد فیاض خان ، استاد علی اکبر خان بیگم اختر اور طلعت محمود جیسی معروف شخصیات سے ہوئی جن سے وہ کافی متاثر ہوئے اور ان کا رجحان موسیقی کی جانب مائل ہو گیا۔ اپنے خواب تعبیر کرنے کے لئے مدن موہن لکھنؤ سے ممبئی آ گئے۔
ممبئی آنے کے بعد مدن موہن کی ملاقات ایس ڈی برمن، شیام سندر اور سي -رام چندر جیسے معروف موسیقاروں سے ہوئی اور وہ ان کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ موسیقار کے طور پر 1950 میں آئی فلم’ آنکھیں‘کے ذریعے وہ فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
اس فلم کے بعد لتا منگیشکر مدن موہن کی پسندیدہ گلوکارہ بن گئیں اور وہ اپنی ہر فلم کے لئے لتا کو ہی منتخب کرتے تھے۔ لتا بھی مدن موہن کی موسیقی سے کافی متاثر تھیں اور انہیں’غزلوں کا شہزادہ‘کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔
موسیقار او پی نیر اکثر کہا کرتے تھے، ’میں نہیں سمجھتا کہ لتا منگیشکر مدن موہن کے لیے بنیں ہیں یا مدن موہن لتا منگیشكر کیلئے لیکن اب تک نہ تو مدن موہن جیسا موسیقار ہوا اور نہ لتا جیسی گلوکارہ۔
مدن موہن کی موسیقی میں آشا بھونسلے نے فلم ’میرا سایہ کیلئے‘ جھمكا گرا رے بریلی کے بازار میں ‘ گایا جسے سن کر سامعین آج بھی جھوم اٹھتے ہے۔ ان سے آشا بھونسلے کو اکثر یہ شکایت رہتی تھی کہ وہ اپنی ہر فلم کے لئے لتا دیدی کو ہی کیوں لیا کرتے ہے، اس پر مدن موہن کہا کرتے تھے ’’جب تک لتا زندہ ہیں ان کی فلموں کے گانے وہی گائیں گی‘‘۔
فلم انڈسٹری میں یہ بحث کہ مدن موہن صرف خواتین گلوکاراؤں کیلئے ہی موسیقی دے سکتے ہیں، وہ بھی خاص طور لتا منگیشکر کے لئے، پچاس کی دہائی میں کافی سرگرم تھی لیکن 1957 کی فلم ’ دیکھ کبیرہ رویا‘ میں گلوکار منا ڈے کے لئے ’کون آیا میرے من کے دوارے‘ جیسا دل کو چھو لینے والی موسیقی دے کر انہوں نے اپنے بارے میں عام خیال کو غلط ثابت کردیا۔
سال 1965 میں کی فلم ’حقیقت‘ میں محمد رفیع کی آواز میں مدن موہن کی موسیقی سے آراستہ نغمہ ’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں‘ آج بھی سامعین میں حب الوطنی کے جذبے کو بلند کر دیتا ہےَ آنکھوں کو نم کر دینے والی ایسی موسیقی مدن موہن ہی دے سکتے تھے۔
سال 1970 میں کی فلم ’دستک‘ کے لیے مدن موہن بہترین موسیقار کے قومی ایوارڈ سے نوازے گئے۔ انہوں نے اپنے ڈھائی دہائی طویل فلمی کیریئر میں تقریبا 100 فلموں کے لیے موسیقی دی۔اپنی شیریں موسیقی سے سامعین کے دل میں خاص جگہ بنا نے والے مدن موہن 14 جولائی 1975 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
مدن موہن کے انتقال کے بعد 1975 میں ہی ان کی ’موسم‘ اور ’لیلی مجنوں ‘ جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں جن کی موسیقی کا جادو آج بھی سامعین کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مدن موہن کے بیٹے سنجیو کوہلی نے اپنے والد کی، غیر استعمال شدہ 30 دھنیں یش چوپڑ ا کو سنائیں جنہوں نے آٹھ کا استعمال اپنی فلم ’ويرزارہ‘ کے لئے کیا۔ یہ گیت بھی سامعین کے درمیان کافی مقبول ہوئے۔