لاہور،: پاکستان کے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری نے سینئر صحافی شاہد مسعود کو سرخیوں میں چھائے زینب آبروریزی اور قتل کیس کے ملزم عمران علی پر ان کی جانب سے لگائے الزامات سے متعلق ثبوت پیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی بنچ نے کل کیس کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کو قتل معاملے میں جلد سے جلد چارج شیٹ داخل کرنے کا بھی حکم دیا۔ زینب قتل میں ملزم عمران سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے ۔ اس کا ڈی این اے پانچ بچیوں سے مل چکا ہے اور اس کی فورنسک رپورٹ پیش کی گئی ہے ۔بی بی سی نیوز کے مطابق اس کیس کے مرکز میں میڈیا کے افراد تھے جس کی وجہ سے بڑے چینلز کے مالکان اور اینکرز اس سماعت میں پہنچے تھے ۔
‘ نیوز ‘کے مطابق”سب سے پہلے ڈاکٹر شاہد مسعود کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ زینب کے قاتل کے 37 بینک اکاونٹس، اس کے ایک بین الاقوامی گروہ سے تعلق اور اس میں حکومت کے ایک وزیر کے شامل ہونے جیسے الزامات کووہ کس طرح ثابت کریں گے ؟ “سینئر صحافی مسعود نے اپنے الزامات کو لے کر کورٹ میں دلیل رکھیں لیکن انہوں نے کوئی پختہ ثبوت پیش نہیں کیا۔ اس کے بعد کورٹ نے ان سے کہا کہ وہ ثبوت لے کر کیوں نہیں آ رہے ۔قابل غور ہے کہ صحافی مسعود نے اپنے پروگرام میں یہ دعوی کیا تھا کہ ملزم عمران کے پاکستان میں 37 سے زائد بینک اکاونٹس ہیں اور زینب قتل معاملے کے پیچھے ایک بین الاقوامی چائلڈ پورنوگرافي گینگ ہے جس کو ایک وزیر کی حمایت حاصل ہے ۔ کورٹ نے معاملے کی جانچ کے لئے قائم کی گئی جے آئی ٹي کے پاس صحافی مسعود کو ثبوت پیش کرنے کو کہا۔ اس کے بعد مسعود نے کہا کہ انہیں جے آئی ٹی پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ اس کے رکن اتنے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ کورٹ نے مسعود کے الزامات کی تحقیقات کے لئے بشیر میمن کی صدارت میں ایک اور جے آئی ٹی تشکیل دی اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے سامنے پیش ہوں۔کورٹ نے کہا کہ اگر شاہد مسعود کے الزام صحیح ثابت ہوئے تو ان کی تعریف کی جائے گی اور اگر غلط ثابت ہوئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ کورٹ میں مسعود کے پروگرام کی کلپ بھی چلائی گئی۔ کورٹ میں سینئر اینکروں اور صحافیوں سے بھی غلط خبر دیئے جانے اور صحافت کے اصولوں پر بات کی گئی۔کورٹ نے کہا کہ ایسی صورت میں کیا کیا جانا چاہئے ؟ اس پر صحافیوں کا کہنا تھا کہ اس معاملہ میں دہشت گردی کا کیس بھی بنتا ہے اور عدالت کی توہین کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اینکرز حامد میر نے کورٹ سے کہا کہ، ”آپ کو ڈاکٹر شاہد مسعود کو معافی کا موقع دیں.” تاہم، مسعود نے کورٹ سے معافی مانگنے سے ا نکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے الزامات پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ڈیولپنگ کہانی ہے اور انہوں نے جو کہا ہے ، وہ اس پر قائم ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ملزم کے اکاونٹس کی معلومات کے بعد سپریم کورٹ نے صحافی شاہد مسعود کے الزامات کے لئے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔وہیں دوسری جانب ، قتل معاملے کی تحقیقات کر رہی جے آئی ٹی سے پوچھا گیا کہ پولیس کتنے دن میں کیس کی چارج شیٹ داخل کر سکتی ہے ۔ تو اس نے 90 دن کا وقت مانگا لیکن کورٹ نے اتنا وقت دینے سے انکارکرتے ہوئے جلد سے جلد چارج شیٹ داخل کرنے کو کہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے زینب کے والد کو کسی بھی قسم کی پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں جو بھی شکایت ہو وہ عدالت کو بتائیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کے آغاز میں قصور میں سات سالہ بچی زینب انصاری کی عصمت دری کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کی لاش ردی کی ٹوکری میں ملی تھی۔