فلم یا رب کی نمائش نہ ہو اسکے لئے مہاراشٹر کے وزیر اقلیتی مسائل و اوقاف محمد نسیم خاں نے ایک خط مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات منیش تیواری کو روانہ کیا ہے ۔ مہاراشٹر کے وزیر نے اس خط میں اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس فلم میں جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کی تصویر مسخ کی گئی ہے۔ نسیم خاں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فلم کی مہاراشٹر میں مسلمان مخالفت کر رہے ہیں ،اس صورت میں فلم یا رب کی ملک گیر پیمانہ پر نمائش ممنوع کی جائے۔
نسیم خاں کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم فورم کے سابق صدر نہال الدین نے کہا کہ مہاراشٹر کے وزیر موصوف کو اگر مسلمانوں اور مسل مسائل سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو وہ سب سے پہلے وزارت سے مستعفی ہوجائیں اور کھل کر ایمانداری سے مسلمانوں اور اوقاف کے تحفظ کی تحریک کی قیادت کریں ۔ انہوں نے کہا وزیر موصوف کیا یہ بتائیں گے انہوں نے شری کرشنا کمیشن کی سفارشات کو صوبائی حکومت کے ذرہعے نہ تسلیم کرنے پر کوئی احتجاج کیا اور خود کانگریس میں رہ کر انہوں نے مہاراشٹر کے مسلمانوں کی زبوں حالی اور انکی تباہی و بربادی کے ہئے کوئی ٹھوس کام کیا؟ نہال الدین نے سوال کیا کہ نسیم خاں نے اپنی سرکار کے خلاف علم بغاوت کیوں نہیں بلند کیا اور اس پر اب تک کیوں ور نہیں دیا کہ شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات پر عمل در امد کرے۔یہی نہیں مہاراشٹر میں دھنا سیٹھوں نے اوقاف کی املاک پر قبضہ کر رکھا ہے اور وزارت اوقاف و وقف بورڈ نا اہل ثابت ہو رہا ہے۔
اسی دوران اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیرمین زفر فاروقی نے فلم یارب کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے فلم دیکھی ہے اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو قابل اعتراض ہو۔.انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر جمع ہونے کے بجائے معاملات خوشاسلوبی سے سلجھنا چاہیئے۔
آستانہ علویہ قصبہ نصیر آباد کے سجادہ نشین مولانا قاری سید حمید الباری کا خیال ہے کہ فلم کو بغیر دیکھ کر ہنگامہ آرائی مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرناکن طاقتوں کا کام یہ بھی معلوم کرنا ہوگا۔انہوں نے ایک پریس بیان میں الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مناسب وقت ہے کہ ہم اپنے درمیان کی کالی بھیڑوں کو بھی شناخت کرلیں ۔ان عناصر کی ذہنیت سے دور رہیں جو جذبات کے دھارے میں ہم کو بہا کر تباہ کرنے پر آمادہ رہتی ہیں۔حضرت وارث علی شاہ فاونڈیشن(جدید) کے سیکریٹری سید غلام وارث نے کہا کہ ایسی کون سی وجہ ہے کہ فلم یارب کی نمائش کو چند لوگ اپنی ناک کا سوال بنائے ہوئے ہیں انکو یہ سوچنا چاہیئے کہ دہشت گردی میں بے قصور ملوث ہمارے نوجوانوں کی وکالت اور پیروی کرنا چاہیئے،عدالتی عمل میں مدد اور انکے کنبوں کی کفالت وقت کی اہم ضرورت ہے۔نام نہاد علما اور نا اہل قیادت ہم کو الجھانے کا کام کر رہی ہے اور اصلی مسائل سے دور بھگا رہی ہے۔اس وقت ضرورت علم و آگہی کی۔تاکہ مسلمان کنبے روزی وروٹی کے سائل کو حل کرسکیں۔یوں بھی فلمیں دیکھنا ہم پر فرض نہیں ہے۔
صوفی شاہ احمدعبد اللہ قادری نے کہا کہ مسلمانوں کی ایک طبقہ اور بعض جماعتیں فلموں سے کیوں دلچسپی کا مطاہرہ کر رہی ہیں۔فلمیں ہمارے سماج کا حصہ نہیں ہیں اور ہم پر واجب نہیں ہے کہ ہم فلموں سے لطف اندوز ہوں۔اس مہم میں ضرورت کسی کی ذاتی دلچسپی ہے جو سماج کو بھڑکا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے مہاراشٹر کے وزیر اقلیتی بہبود کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کود ممبئی اور مالیگاوں کے علاوہ اس ریاست کے بے یار و مدد گار مسلمانوں کے لئے کیا کیا؟ انکو اسکا حساب دینا ہوگا۔سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایک غیر اسلامی مسئلہ کو اسلامی مسئلہ بنا کر پیش کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔