ایک اسرائیلی مؤرخ نے حیران کن اور سنسنی خیز اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی تشخص کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور یہودی فلسطین چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
اسرائیلی مؤرخ بيني مورس (Benny Morris בני מוריס) ـ جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ ۱۹۴۸ع کے یوم نکبہ (Nakba Day) کے بعد سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے جرائم کے بارے میں منصفانہ موقف اپناتا رہا ہے ـ نے یہودی ریاست کے اخبار “ہاآرتص” (Haaretz) سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینیی اپنی پوری سرزمین کی آزادی اور صہیونیت کی بیخ کنی کے عزم کے پابند ہیں۔
موریس نے زور دے کر کہا کہ کوئی علاقائی تصفیہ ممکن نہیں ہے اور کسی صورت میں بھی ملکوں کو تقسیم کرکے امن کا قیام ممکن نہيں ہے۔
موریس نے مزيد کہا: جہاں تک یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کے وجود کا تعلق ہے، تو میں نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے کیونکہ آج بحر اور نہر (بحیرہ روم اور دریائے اردن) کے درمیانی علاقوں (یعنی سرزمین فلسطین) میں عربوں کی آبادی یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے، اور اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے تمام علاقے اور شہر و دیہات، تبدیلی کے عمل سے گذر رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کو روکنا ممکن نہیں ہے، وہ واحد ریاست میں بدل رہے ہیں جہاں عربوں کی اکثریت ہوگی؛ جبکہ اسرائیل “یہودی ریاست” کہلوانے پر اصرار کررہا ہے؛ لیکن جس حالت میں ہم ایک مقبوضہ سرزمین کے عوام پر مسلط ہوئے ہیں، جن کو کسی طرح کے حقوق نہيں دیئے گئے ہیں اس حالت کو اکیسویں صدی میں جاری نہيں رکھا جاسکتا؛ اور اگر پھر ان کو ان کے حقوق دیئے جائیں تو اس صورت میں یہ ریاست یہودی ریاست نہیں رہے گی۔
انھوں نے کہا: اس سرزمین میں مشرق وسطی کی عرب اکثریتی ریاست قائم ہوگی اور اس ملک میں رہنے والے مختلف گروہوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوگا، اور عرب [فلسطینی] پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کریں گے اور یہودی فلسطینی عربوں کے وسیع و عریض سمندر کے بیچ چھوٹی سی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے؛ ایسی اقلیت جس کو یا تو مارا جائے گا یا پھر ان کا تعاقب کیا جائے گا؛ اور یہودیوں کا حال اسی زمانے کی طرح ہوگا جب وہ عرب ممالک میں سکونت پذیر تھے۔ (۱) اور یہودیوں میں جو بھاگ سکے وہ بھاگ کر امریکہ اور مغربی ممالک میں پناہ لے گا۔ اور فلسطینی عوام عرصہ دراز سے ان حالات کو وسیع نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں یہاں ۵۰، ۶۰ یا ۷۰ لاکھ یہودی رہتے ہیں جن کا سینکڑوں میلین عربوں نے احاطہ کیا ہوا ہے۔ اور کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ فلسطینی اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں۔ چونکہ یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا؛ چنانچہ فلسطینیوں کی کامیابی لازمی اور ناگزیر ہے۔ شاید ۳۰ سال بعد یا ۴۰ سال بعد، (۲) جو کچھ بھی ہوگا، وہ ہم پر غلبہ پائیں گے۔
موریس کے مطابق، جو بھی کہتا ہے کہ (یہودی ریاست کے سابق وزیر اعظم) ایہود بارک اور (سابق امریکی صدر) بل کلنٹن نے فلسطینیوں کو کچھ تجاویز دی تھیں جنہیں قبول کرنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا، وہ جھوٹ بولتا ہے۔ فلسطینی ۱۰۰ فیصد مقبوضہ سرزمین کو چاہتے ہیں اور جس وقت وہ مصالحت کے لئے آمادگی ظاہر کررہے تھے، در حقیقت چالیں چل رہے تھے۔
موریس نے مزید کہا: صہیونی قومی تحریک نے ۱۹۳۷ع، ۱۹۴۷ع، ۱۹۷۷ع اور ۲۰۰۸ع میں “دو قوموں کے لئے دو ریاستوں” کے قیام سے اتفاق کیا تھا!
بيني مورس نے یہودی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: نیتن یاہو فلسطینوں کے ساتھ مصالحت کے منصوبے پر کام نہیں کررہا ہے؛ گوکہ مصالحت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی لیکن نیتن یاہو پر لازم ہے کہ “دنیا والوں کی نظروں کے سامنے سفارتی کھیل کھیلتا رہے”۔ (۳)