نئی دہلی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہلی یونٹ نے اتوار کو اعلان کیا کہ تقریبا 200 مسلم برادری کے لوگ پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ لوگ دہلی کے شاہین باغ ، اوکھلا اور نظام الدین کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ انہی لوگوں میں سے ایک شہزاد علی بھی ہیں جنہیں شاہین باغ کا اہم ایکٹیوسٹ بتایا گیا۔ اس کے بعد عام آدمی پارٹی نے بھی پریس کانفرنس کر کہا کہ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ شاہین باغ کے احتجاج کو بی جے پی نے اسپانسر کیا تھا۔
لیکن کیا شہزاد علی واقعی میں شاہین باغ کے اہم ایکٹیوسٹ ہیں؟ کیا وہ کسی بھی طور پر تین ماہ تک چلے اس احتجاج کی قیادت کر رہے تھے؟ اس احتجاج کا حصہ رہے لوگ تو اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔
کیا کہتے ہیں شاہین باغ کے احتجاج کا حصہ رہے لوگ
اس احتجاج کا آغاز سے ہی حصہ رہیں کہکشاں کہتی ہیں ’’ شہزاد علی احتجاج میں حصہ لے رہے کئی رضاکاروں میں سے ایک تھے۔ سیدھے طور پر وہ خود ساختہ سیکورٹی رضاکار تھے۔ میں آغاز سے اس احتجاج کا حصہ رہی لیکن کبھی شہزاد کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی۔ احتجاج کاروں کے بیچ زیادہ لوگ انہیں نہیں جانتے۔
احتجاج میں مستقل نہیں آتے تھے شہزاد
احتجاج کا حصہ رہیں ایک اور خاتون ریتو کوشک کہتی ہیں کہ میں شروعات سے وہاں رہی اور اسٹیج کی انچارج بھی تھی۔ شہزاد تو وہاں پر مستقل طور پر آتے بھی نہیں تھے۔ انہیں وہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں نے انہیں کسی اسٹیج پر نہیں دیکھا۔ اور اب انہیں اہم ایکٹیوسٹ بتایا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج خواتین کا تھا اور خواتین ہی کا اس میں اہم رول تھا۔ آخر اس بات کی کیا اہمیت ہے کہ کوئی شخص جو کبھی کبھار احتجاج میں آتا تھا، اس نے کوئی سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
وہیں، بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ شہزاد نے شاہین باغ میں احتجاج نہیں کیا۔ در حقیقت انہوں نے احتجاج کاروں کی مخالفت کی تھی۔ بی جے پی کی ترجمان نکہت عباس کا کہنا ہے کہ شہزاد شاہین باغ کے رہنے والے سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی احتجاج نہیں کیا۔ انہوں نے وہاں پر لوگوں کو احتجاج ختم کرنے کے لئے سمجھانے کی ہمیشہ کوشش کی۔